Posts

Showing posts from April, 2022

Afsancha

Image
عنوان : ماتھے کا جھومر  مصنفہ :رخشندہ بیگ  پورا کمرہ گلاب کے پھولوں سے مہک رہا تھا۔ گلاب کی  منہ بند کلیاں سفید موتیے کے ساتھ مل کر ایک عجب سا فسوں پھیلاٸے، اس شبستان کے آباد ہونے کی امید میں اپنے پھول بننے کی منتظر، اپنے وجود کی مہک سے قرب وجوار کو مہکاٸے دے رہی تھیں۔ پرتعیش بستر پر بچھی سفید، بےداغ ریشمی چادر اور اس پر سرخ مخملی تکیوں کے سہارے نیم دراز عروس، بھاری لباس و زیورات کے ساتھ اس سے بھی کٸی گنا بھاری باپ کے اونچے شملے کی عزت کا بوجھ اپنے وجود پر لادے، اندیشوں کے جھولے پر ہچکولے کھا رہی تھی۔ خود کو بار بار اس امتحان کے لٸے ہمت دے رہی تھی جو آنے والے کچھ لمحوں میں اس پر مسلط ہونے والا تھا۔ کمرے کے دروازے پر ہونے والی آہٹ نے اس کو چوکنا کر دیا تھا۔ تکیے کا سہارا چھوڑ کے وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ سر پر دھرے آنچل کو کھینچ کر گھونگھٹ کی شکل دینے میں اسے بس اک پل لگا۔ زمین کا وارث، ایک شاہانہ کروفر کے ساتھ کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔ دلہن کا گھونگھٹ ایک جھٹکے سے الٹ دیا گیا۔ پہلی بات شرط پر پورا اترنا تھی اور اس کے بعد الفاظ ہی نہیں بچے تھے جو اپنا اظہار کرتے سو چپکے سے منہ مو...

Article

Image
حکیم محمد سعید  ایک یادگار ، تاریخ ساز شخصیت  ازقلم : رخشندہ بیگ  ایک بچہ اپنے بڑے بھائی اور بزرگوں کے ہمراہ کسی جنگل میں شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے ۔گرمی شدید ہے اور دھوپ و پیاس کی شدت نے بے چین کر دیا ہے ۔کہ راستے میں اچانک گنے کے کھیت پر نظر پڑی اور اس بچے نے بے تابی سے ایک گنا توڑ کر چوسنا شروع کر دیا ۔ بڑے بھائی کی جو نظر پڑی تو سوال کیا ۔ "گنا توڑنے سے پہلے کھیت کے مالک سے اجازت لی تھی ؟" یہ سن کر بچے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔کہ پیاس کی شدت میں یہ تو دھیان ہی نہ رہا ۔اب شرمندگی کے مارے سر جھکائے کھڑا تھا ۔ بڑے بھائی نے کھیت کے مالک کو تلاش کیا اور اسے گنے کی قیمت لینے پر اصرار کیا ۔۔۔۔۔جسے گنے کے مالک نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ "بچہ ہی تو ہے لے لیا تو کیا ہوا !!  اسے میری طرف سے تحفہ سمجھ لیجے ۔" "یہ تھا بچوں کے پیارے حکیم محمد سعید کا بچپن ۔۔۔۔۔دیانت داری ، امانت ، سچائی اور محنت کے اصول انہیں بہت کم عمری میں ہی ازبر کروادیے گئے تھے ۔" جنوری 1920 دلی میں حکیم عبدالحمید کے ہاں پانچویں بچے کی پیدائش ہوئی ۔اس بچے کا نام  محمد سعید رکھا گیا ۔یہ بچہ تما...

Afsana

Image
عنوان :منت کی دیگ  رخشندہ بیگ    ”بھورے ،نذیر ، راجی اور باقی سارے کہاں رہ گٸے ہو “؟ عبدالکریم کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی ۔ گھر کے تینوں کمروں میں ہر عمر کی عورتیں ، لڑکیاں اور بچیاں بلاامتیاز بھری ہوئی تھیں ۔ نواڑی پلنگوں پر عمر رسیدہ عورتیں جو رتبے میں دادی نانی ، تاٸی ،چچی ،ممانی اور پھپھی جیسے عہدوں پر فائز تھیں ,براجمان تھیں ۔کچھ شادی شدہ نوجوان  عورتیں میسر آٸے مونڈھوں پر بیٹھیں تھیں ,جن میں سے کچھ اپنا پیٹ سنبھال رہی تھیں ,تو کچھ شیر خوار کو چھاتی سے لگائے اور دوسرے کو گھٹنے پر ٹکائے مامتا لٹانے میں مصروف تھیں ۔لڑکیاں بالیاں نیچے  کھیس نما دری پر بیٹھی ایک دوسرے کے کانوں میں گھسی سرگوشیوں میں مصروف نظر آتی تھیں ۔ بڑا سارا صحن رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجا تھا ایک طرف اگربتیاں  سلگ رہی تھیں جو ختم ہونے پر دوبارہ لگا دی جاتی تھیں ۔ صحن میں موجود عبدالکریم کلف لگی پگڑی اور سفید کرتا دھوتی میں ملبوس بڑی شان سے مونچھوں کو تاؤ دیتے موجود تھے ۔ پیر پیراں بڑی سرکار کی آمد کا وقت ہوا ہی چاہتا تھا ,”ارے ناہنجاروں کوئی بڑی سڑک تک بھی گیا ہے یا نہیں !!! ؟ بڑے ...

Kids Fiction

Image
 #Kids Fiction عنوان :مہربان ساواہ  مصنفہ :رخشندہ بیگ حسین ترین شب اپنے پورے جوبن پر تھی .فضاء بے کراں کے سینے پر طلسمی تجلیاں اپنا فسوں پھیلاٸےکسی انہونی کی منتظر تھیں ۔ حد نظر آسمان قرمزی رنگوں سے سجا ,اپنے سینے پر جا بجا روشن قندیلیں لئے ,فخر سے سینہ تانے دھرتی کے اندھیروں کو ستاروں کے جھرمٹ اور ان کی روشن کرنوں سے منور کیے دے رہا تھا ۔ برف زاروں پر ٹنڈ منڈ اشجار اپنے پیرہن کے بوجھ سے آزاد اداس کھڑے تھے۔ نئی امیدوں نئے شگوفوں کے منتظر نئی بہاروں کے انتظار میں، اپنے سوختہ اجسام لیے ستاروں کو تکتے تھے اور یہ جادوئی سی اسرار بھری روشنی برف زاروں پر پڑ کے سفید برف کو بھید بھرے رنگوں میں تبدیل کرتی نظر آتی تھی ۔ تمام سبزہ تمام سبز پیراہن برف کی سفید قبر میں دفن ہو چکے تھے ۔ایسے میں وہ بڑی شان سے قدم اٹھاتا غرور سے کسی شاہ کی طرح قدم قدم برفیلے راستوں پر ،کسی غذا کی تلاش میں سرگرداں، حیرت سے سر اٹھا کر اس پر فسوں رات کے سحر کو محسوس کرتا نظر آرہا تھا ۔ اونچے لمبے تنے اور ان کی برہنہ شاخوں کے نوکیلے پنجوں سے جھانکتے مسکراتے ستارے ،اپنی ہستی پر نازاں نظر آتے تھے ۔ فیری ٹیل کی طرح ک...

Articl

Image
   عنوان :ہم اور ہمارے رنگ   ازقلم :رخشندہ بیگ کراچی  آئیے احباب آپ سے ایک راز بیان کروں ،گو کہ یہ اب ایسا کوئی راز بھی نہیں جو اسرار کی تہوں میں پوشیدہ ہو ۔ بطور قوم ہم اور ہمارے رنگ دنیا کے ساتھ ساتھ اب ہم پر خود بھی آشکار ہیں ۔ لاکھ پہلو بچائیں ,ہزار نظرئیں چرائیں ,مگر ہم پاکستانیوں جیسی رنگ برنگی فطرت کی مالک قوم آپ کو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی دستیاب نہ ہو سکے گی ۔ گرگٹ تو رنگ بدلنے میں بس ویسے ہی شہرت یافتہ ہے ۔اصل رنگ بدلنے میں ماہر ہم نہ جانے کیسے اس شہرت واعزاز سے محروم رہے ۔ اس سلسلے میں بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں بھی اغیار کی کوئی نہ کوئی سازش کارفرما نظر آتی ہے ،کہ ہزار رنگ داستاں کی طرح ہر موقع کی مناسبت سے بھیس بدلنے میں ماہر ،ہماری اس خصوصیت کا کہیں کوئی ذکر خیر ہی نہیں ملتا ۔ ارے صاحب آپ کو ہمارے رنگ دیکھنے ہیں تو آئیے زرا کچھ نظارے کرواتے ہیں ۔پانچ سالہ دور حکومت (جو کسی کسی منتخب رہنما کو ہی پورا کرنا نصیب ہوتا ہے ۔)کے بعد ہونے والے الیکشن کے دوران ہم سب اپنی سیاسی بصارت وبصیرت کے وہ وہ جوہر دکھاتے ہیں ،بلکہ اپنی پسندیدہ جماعت وامیدوار کی وہ وہ خ...

Kids Story

Image
  عنوان :ببلو میاں کا روزہ  مصنفہ :رخشندہ بیگ خبر گرم تھی کہ اس سال رمضان مبارک میں باسط میاں عرف ببلو میاں کی روزہ کشائی کی جائے گی ۔ سارے بہن بھائی مسکرا مسکرا کر ببلو میاں کو دیکھتے اور پیشگی مبارک باد دیتے ۔ ببلو میاں کے چچا اور ان کے کزن ارسطو کو جب یہ خبر ملی تو وہ بھی ملنے اور مبارک باد دینے چلے آیے ۔ اب حال یہ تھا کہ سب ہی جاننے والے جو ببلو میاں اور ان کی خوش خوراکی سے واقف تھے ، وہ ببلو میاں کو روزہ رکھتے اور اس روزے کے دوران ان کے صبر کا مشاہدہ کرنے کے لیے بے تاب تھے ۔ "امی !! وہ گرمی بہت ہے تو کیوں نہ میری رسم روزہ کشائی اگلے سال تک موخر کر دی جائے ۔" ببلو میاں نے ٹھنڈے ٹھار شربت کے گلاس پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اپنی تجویز کے حق میں امی کی حمایت چاہی ۔ "ارے ببلو کیا اتنے بڑے لوٹھا ہو گئے ہو ،پورے گیارہ برس کے ،جب کہ تمہارے تمام بہن بھائیوں نے آٹھ نو برس کی عمر میں روزہ رکھنا شروع کردیا تھا ۔ اب مزید دیر نہیں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے ۔" امی نے غصہ کرتے ہوئے انہیں حقیقت حال سے آگاہ کرتے ہوئے زبانی چھترول سے کام لیا ۔ اب اس کے بعد کچھ مزید کہنے کا مطلب امی جی...

سرخ گلاب

Image
  عنوان :سرخ گلاب   مصنفہ :رخشندہ بیگ افسانہ  تیز قدموں سے راہ میں آنے والے سوکھے پتوں کو روندتے وہ چلا جا رہا تھا ۔ نہ جانے کب شام کے گہرے سائے افق سے زمین پر اترے اور تاریکی نے اسے اپنی پناہوں میں لے لیا ۔  گہرے سرمئی رنگ  سے سجی رات دھیمے دھیمے اپنے پر پھیلاتی دن بھر کی تھکن سے چور  جسم کو رکنے پر اکساتی تھی ۔دن کی چکا چوند روشنیوں سے جلتی ہوئی اس کی آنکھوں نے کچھ لمحے اس تاریکی میں سکون سا محسوس کیا ۔ اس نے آنکھیں موند لیں گرم سیال مادہ سنہری آنکھوں سے بہہ نکلا ۔  جلتی آنکھوں کو گویا قرار ملا ، مگر بے قرار دل کی بے سکونی میں اضافہ ہونے لگا۔  چلتے چلتے ماضی کے در وا ہوئے اور وہ خوشبو سے مہکتے لمحات میں داخل ہو گیا ۔ "سنو !!  سرخ گلاب تمہارے انتظار میں رنگ بدلتے جارہے ہیں ۔جدائی کا زرد رنگ ان کی سرخی پر غالب آتا جا رہا ہے ۔اس سے پہلے کہ بہار کے رنگ وروپ پر خزاں شب خون مار دے ،تم لوٹ آؤ ۔" اس نے مسکراتے ہوئے اس کا میسج پڑھا اور موسم سرما میں اس برف سے بھری سڑک پر محبت کے ہزاروں رنگ جلوہ گر ہو گیے ۔ ظالم برف کی سفیدی اور پردیس کی بے مہری یک د...