Afsancha
عنوان : ماتھے کا جھومر مصنفہ :رخشندہ بیگ پورا کمرہ گلاب کے پھولوں سے مہک رہا تھا۔ گلاب کی منہ بند کلیاں سفید موتیے کے ساتھ مل کر ایک عجب سا فسوں پھیلاٸے، اس شبستان کے آباد ہونے کی امید میں اپنے پھول بننے کی منتظر، اپنے وجود کی مہک سے قرب وجوار کو مہکاٸے دے رہی تھیں۔ پرتعیش بستر پر بچھی سفید، بےداغ ریشمی چادر اور اس پر سرخ مخملی تکیوں کے سہارے نیم دراز عروس، بھاری لباس و زیورات کے ساتھ اس سے بھی کٸی گنا بھاری باپ کے اونچے شملے کی عزت کا بوجھ اپنے وجود پر لادے، اندیشوں کے جھولے پر ہچکولے کھا رہی تھی۔ خود کو بار بار اس امتحان کے لٸے ہمت دے رہی تھی جو آنے والے کچھ لمحوں میں اس پر مسلط ہونے والا تھا۔ کمرے کے دروازے پر ہونے والی آہٹ نے اس کو چوکنا کر دیا تھا۔ تکیے کا سہارا چھوڑ کے وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ سر پر دھرے آنچل کو کھینچ کر گھونگھٹ کی شکل دینے میں اسے بس اک پل لگا۔ زمین کا وارث، ایک شاہانہ کروفر کے ساتھ کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔ دلہن کا گھونگھٹ ایک جھٹکے سے الٹ دیا گیا۔ پہلی بات شرط پر پورا اترنا تھی اور اس کے بعد الفاظ ہی نہیں بچے تھے جو اپنا اظہار کرتے سو چپکے سے منہ مو...