Kids Fiction

 #Kids Fiction


عنوان :مہربان ساواہ 


مصنفہ :رخشندہ بیگ


حسین ترین شب اپنے پورے جوبن پر تھی .فضاء بے کراں کے سینے پر طلسمی تجلیاں اپنا فسوں پھیلاٸےکسی انہونی کی منتظر تھیں ۔

حد نظر آسمان قرمزی رنگوں سے سجا ,اپنے سینے پر جا بجا روشن قندیلیں لئے ,فخر سے سینہ تانے دھرتی کے اندھیروں کو ستاروں کے جھرمٹ اور ان کی روشن کرنوں سے منور کیے دے رہا تھا ۔

برف زاروں پر ٹنڈ منڈ اشجار اپنے پیرہن کے بوجھ سے آزاد اداس کھڑے تھے۔ نئی امیدوں نئے شگوفوں کے منتظر نئی بہاروں کے انتظار میں، اپنے سوختہ اجسام لیے ستاروں کو تکتے تھے اور یہ جادوئی سی اسرار بھری روشنی برف زاروں پر پڑ کے سفید برف کو بھید بھرے رنگوں میں تبدیل کرتی نظر آتی تھی ۔

تمام سبزہ تمام سبز پیراہن برف کی سفید قبر میں دفن ہو چکے تھے ۔ایسے میں وہ بڑی شان سے قدم اٹھاتا غرور سے کسی شاہ کی طرح قدم قدم برفیلے راستوں پر ،کسی غذا کی تلاش میں سرگرداں، حیرت سے سر اٹھا کر اس پر فسوں رات کے سحر کو محسوس کرتا نظر آرہا تھا ۔

اونچے لمبے تنے اور ان کی برہنہ شاخوں کے نوکیلے پنجوں سے جھانکتے مسکراتے ستارے ،اپنی ہستی پر نازاں نظر آتے تھے ۔

فیری ٹیل کی طرح کا منظر کسی کو بھی ایک جادوئی دنیا میں لے جانے پر قدرت رکھتا تھا ۔پر بھوک !!ہاں بھوک سارے مناظر کو ساری خوبصورتیوں کو نگل جاتی ہے سو  وہ بھی اس برفیلے موسم میں ،موسم کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے  غار کی پر حدت  آغوش سے، اپنی مادہ اور بچوں کو خوراک پہنچانے کی آس میں چھوڑ کے نکلا تھا ۔

خاندان کا سربراہ ہونے کا غرور اور ذمہ داری کا احساس اس کے  قدموں کو برف پر تیز گام کیے ہوئے تھا ۔

باہر نکلنے سے پہلے اس نے محبت بھری نگاہ اپنے خاندان پر ڈالی ۔مادہ بھیڑیا ،اس کے دونوں بچے اور بوڑھی ماں ،یہ اس کا خاندان تھا اور وہ ان کا سربراہ ۔

فخر اور مان بھری نظر سے ڈولی نے اسے دیکھا ۔"ساواہ دنیا ہمارے بارے میں نہ جانے کیا کیا کہتی ہے ۔ہم بھیڑیوں کو وحشت ،ظلم ،درندگی کی علامت کہا جاتا ہے۔ مگر ہم جس مضبوط خاندانی نظام میں بندھے ہوئے ہیں ،وہ تو اب اشرف المخلوقات انسان میں سے بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔"

ساواہ نے تدبر سے مسکراتے ہوئے ڈولی کی جانب دیکھا اور دونوں بچوں کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا ۔

بچے آہستہ سے اٹھے اور ساواہ کے پر حدت جسم سے اپنا جسم رگڑنے لگے ۔

اس نے فکر مندی سے دونوں بچوں کو دیکھا ،جو غذا کی کمی کی وجہ سے کمزور اور سست ہو چکے تھے ۔

"میرے بچوں ہم مردار نہیں کھاتے ،اپنا شکار اپنے زور بازو سے حاصل کرتے ہیں ۔بھوک کو اپنی طاقت بناؤ اور خاندان کو اپنے آگے رکھو یہ تمہیں ہمیشہ ہمت عطا کرے گا ۔"

ساواہ نے بچوں کہ ہمت دیتے ہوئے نصیحت کی ۔

ایک کونے میں بیٹھی اس کی ماں نے بھی ایک ہنکارا بھرا اور اپنے پوتوں کو بتایا ۔

"میرے بچوں تمہیں فخر ہونا چاہیے کہ تم بھیڑیوں کے خاندان میں پیدا ہوئے ہو ۔ہم بہادری اور غیرت کا نشان ہیں ۔لوگ ناحق شیر کی بہادری کی مثال دیتے ہیں جو کہ  سراسر غلط ہے ۔

بھیڑیا مردار نہیں کھاتا ھمیشہ تازہ گوشت کھانا پسند کرتا ھے جبکہ شیر کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کا مارا ہوا یا جھوٹا نہیں کھاتا یہ بالکل بے بنیاد اور جھوٹ ھے شیر بھوکا ھو تو جو کچھ بھی مل جائے کھا کر پیٹ بھر لیتا ھے جبکہ ہم۔ کئی دن کی بھوک برداشت کر لیتے ہیں لیکن کسی بھی صورت میں مردار کو منہ نہیں لگاتے۔"


اب کہ ڈولی کے ساتھ دونوں بچوں نے بھی فخر سے ساواہ کی جانب دیکھا اور سب نے مل کر ایک الوداعی ذوردار آواز نکالی جو دیر تک فضا میں گونجتی رہی ۔


"تم بے فکر ہو کر جاؤ ساواہ میں تمارے پیچھے ماں اور بچوں کی پوری طرح حفاظت کروں گی ۔"

ڈولی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔


"ادھر آؤ بچوں میں تمہیں جنات کے واقعات سناؤ گی ۔تمہیں علم ہے کہ ہم  سب سے زیادہ پراسرار جانور ہیں . ہمارے متعلق بیشمار پراسرار داستانیں مشہور ہیں ۔ ہم جنات کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں. بھیڑیے پورے چاند کی رات کو بہت جذباتی ہو جاتے ہیں اور چاند کی طرف منہ کر کے اپنے حلق سے بہت ہی دردانگیز آوازیں نکالتے ہیں جنہیں دس کلومیٹر دور تک سنا جا سکتا ہے."

دونوں بچے اب دادی کے پاس سمٹ آئے تھے ۔ساواہ نے ایک مطمئن نظر اپنے پرسکون خاندان پر ڈالی اور غار سے باہر نکل آیا ڈولی کچھ دور تک اس کے ہمراہ تھی ۔اسے مان تھا اپنے ساتھی پر ، جانتی تھی کہ اس کی نسل میں بے وفائی کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ایک نر بھیڑیا جب کسی مادہ بھیڑیا کے ساتھ اپنا خاندان بناتا ہے تو وہ تعلق مرتے دم تک نبھاتا ہے ۔چند قدم بعد ساواہ نے مڑ کے ڈولی کو واپسی کا اشارہ کیا اور زقند بھرتا برف زاروں کی طرف بڑھ گیا ۔


منظر بہت حسین تھا ،رنگوں اور روشنیوں سے سجا آسمان روشن قندیلوں سے  پھوٹتی کرنیں  سفید برف سے ٹکرا کر چاروں اور اپنا فسوں پھیلائے ہوئی تھیں ۔ایک بھید بھری خاموشی جو اپنے جلو میں ہزاروں سر سنگیت پر بھاری تھی ۔

آسمان جو اپنی سجاوٹ پر نازاں تھا، اپنی بلندی پر تکبر سے سرتانے کھڑا تھا ,زمین جو اپنی ہستی میں اسرار بھرے صبر و سکون کاپیکر بنی صدیوں سے موسموں کے تغیر ات کو سینے میں سمیٹے کھڑی تھی , اشجار تھے جو نئے پیراہن کے منتظر اپنے برہنہ بدنوں سے نظر چراٸے کھڑے تھے ,ستارے بھی اپنی مدھ بھری روشنی پر نازاں سورج کے اُگ آنے سے  اپنی ہستی معدوم ہونے سے پہلے بڑی شدومد سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مشغول تھے۔

ہاں !!! منظر بہت حسین تھا پر!!!پس منظر بھیانک سچائیاں لیے بہت سوں کے لیے آزمائش تھا ۔

ظالم برف درختوں سمیت دھرتی کی بھی ساری سبز سوغات نگل چکی تھی۔ بھوکے پیٹوں کی دوہائیاں عروج پر تھیں ۔جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے کوششیں تیز تر ہو چکی تھیں ,موت اپنے ظالم پنجے پھیلائے چار سو رقصاں تھی۔ ڈھیر سارے مست نغموں میں ایک کرب انگیز پکار بھوک تھی ۔موت کی گونجتی سسکیاں جو چاروں اور سے امنڈ رہی تھیں ۔موت جو ظالم جادوگرنی کی طرح اپنے شکنجے میں ہر بے بس کو لیے بڑی شان سے محو تماشا تھی ۔

وہ حیرت سے جگمگاتے ستاروں کو تکتا تھا ،یہ کیوں اتنے خوش ہیں؟ یہ کیوں مسکرا رہے ہیں ؟کس خوشی کا نغمہ گنگنا رہے ہیں ؟ آسمان پر کرمزی رنگ کیوں پھیلے ہیں ؟

جبکہ دھرتی پر صرف ایک ہی رنگ ہے سفید رنگ ,اداسی کا رنگ,بھوک کا رنگ ,موت کا رنگ جوہر قابل استعمال خوراک نامی چیز کو نگل چکا تھا ۔پھر بھی وہ آس اور امید کا دامن تھامے ,اس ظالم خوبصورتی میں سے جینے کی زندہ رہنے کی امید تلاش کرتا پہاڑوں کی اونچی نیچی ڈھلانوں پر سرگرداں تھا۔ برف کی ظالم اور گہری تہوں کے نیچے چھپے ،زندگی کے آثار تلاش کرتا ساواہ  واپس اپنی پر حدت پناگاہ میں جانے کو بے تاب تھا ۔ڈولی ،ماں اور بچوں کے منتظر چہرے اس کے تصور میں اپنی چھپ دکھاتے تو سرد جسم کو چیر دینے والی ہوا کی کاٹ ایک پرسکون تھپکی میں بدل جاتی ۔

روشن ستارے ایک دوسرے کو اشارے  کرتے ,مغرور آسمان بے نیازی سے تکتا ,برہنہ شجر اس سے منہ چھپاتے ,ایسے میں صرف مہربان زمین ہی تھی۔ جو ایک امید تھی، زندگی کی، جس نے اپنے دامن کی وسعتوں میں کہیں نہ کہیں برف کی ظالم دسترس سے محفوظ  کچھ نہ کچھ غذا  چھپا رکھی تھی، زندگی کے نام پر ۔۔۔۔وہ ہمت والا اسرار بھری خوبصورت رات میں مہربان زمین کی گود سے اس چھپی ہوئی زندگی کو ڈھونڈنے نکلا تھا، جس میں اس کی اور اس کے خاندان کی بقا تھی ۔


ڈولی پوری طرح ہو شیار تھی اور اس کی منتظر بھی ۔ ان کے خاندان کی روایت تھی کہ نر جب شکار پر نکلتے تو پیچھے سے بچوں اور بوڑھے بھیڑیوں کی نگہداشت جوان مادہ کی ذمے داری ہوتی تھی ۔

آج دو دن گزر چکے تھے ۔ان سب کی بے تاب نگاہیں غار کے باہر ساواہ کی چاپ پر لگی تھیں ۔غذا ختم ہو چکی تھی اور اب جسم لاغر ہوتے جارہے تھے ۔اچانک دور سے ایک تیز آواز ہوا کے دوش پر سفر کرتی ان تک پہنچی اور ان سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔


ڈولی نے باہر نکل کر ساواہ کا استقبال کیا ،جو اس سخت موسم میں بھی تازہ شکار منہ میں دبائے تیزی سے اپنے مسکن کی جانب بڑھ رہا تھا ۔

جیسے ہی وہ غار میں پہنچا ان سب نے اپنے منہ اوپر کر کے  خوشی و مسرت سے لبریز ایک اونچی مشترکہ اووووووں کی آواز نکال جیسے اپنے رب کا شکر ادا کر رہے ہوں ۔اور مل کر شکم سیری کرنے لگے ۔


Rskshii write ۔

Comments