Article

حکیم محمد سعید 

ایک یادگار ، تاریخ ساز شخصیت 



ازقلم : رخشندہ بیگ 



ایک بچہ اپنے بڑے بھائی اور بزرگوں کے ہمراہ کسی جنگل میں شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے ۔گرمی شدید ہے اور دھوپ و پیاس کی شدت نے بے چین کر دیا ہے ۔کہ راستے میں اچانک گنے کے کھیت پر نظر پڑی اور اس بچے نے بے تابی سے ایک گنا توڑ کر چوسنا شروع کر دیا ۔

بڑے بھائی کی جو نظر پڑی تو سوال کیا ۔


"گنا توڑنے سے پہلے کھیت کے مالک سے اجازت لی تھی ؟"

یہ سن کر بچے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔کہ پیاس کی شدت میں یہ تو دھیان ہی نہ رہا ۔اب شرمندگی کے مارے سر جھکائے کھڑا تھا ۔

بڑے بھائی نے کھیت کے مالک کو تلاش کیا اور اسے گنے کی قیمت لینے پر اصرار کیا ۔۔۔۔۔جسے گنے کے مالک نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ "بچہ ہی تو ہے لے لیا تو کیا ہوا !!  اسے میری طرف سے تحفہ سمجھ لیجے ۔"


"یہ تھا بچوں کے پیارے حکیم محمد سعید کا بچپن ۔۔۔۔۔دیانت داری ، امانت ، سچائی اور محنت کے اصول انہیں بہت کم عمری میں ہی ازبر کروادیے گئے تھے ۔"


جنوری 1920 دلی میں حکیم عبدالحمید کے ہاں پانچویں بچے کی پیدائش ہوئی ۔اس بچے کا نام  محمد سعید رکھا گیا ۔یہ بچہ تمام بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا ۔خاندانی روایات کے مطابق قران پاک نو سال کی عمر میں حفظ کر لیا ۔اس کے بعد ابتدائی تعلیم گھر ہی میں حاصل کی ۔ماسٹر اقبال حسین نے اردو اور حساب پڑھایا ۔عربی اور فارسی مشہور عالم مولانا قاضی سجاد سے حاصل کی۔

ایک دن بڑے بھائی ہاتھ تھام کر حکیم اجمل خان کے قائم کردہ طبیہ کالج لے گئے ۔جہاں کم عمری کے باعث داخلہ دینے سے منع کر دیا گیا ۔مگر جب ان کا انگریزی ، اردو ، عربی ، اور فارسی کا امتحان لیا گیا تو اس میں انہوں نے حیرت انگیز کامیابی حاصل کی اور اس طرح اس ہونہار لڑکے کو بڑے اعزاز کے ساتھ کالج میں داخلہ دے دیا گیا ۔محمد سعید نے یہاں بھی لگن اور توجہ سے طب کی تعلیم حاصل کی اور حکیم محمد سعید بن کر نکلے ۔


"آپ نے دیکھا کہ محنت اور توجہ سے علم کی جستجو کرنے والا ہی کا میابی حاصل کر پاتا ہے ۔نونہالوں کے ہر دل عزیز حکیم محمد سعید کی زندگی کے مزید واقعات پڑھیے ۔"



حکیم محمد سعید رشتہ ازواج میں بندھ چکے تھے اور ایک پیاری سی بیٹی کے والد بھی بن چکے تھے ۔اس دوران  3 جون 1947 کو تقسیم ہند کا اعلان ہوا اور 14 اگست 1947 کا دن آزادی کے سورج کے ساتھ طلوع ہوا ۔


حکیم محمد سعید نے ہندوستان میں قائم وسیع جائیداد اور کاروبار چھوڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا ۔یہ 9جنوری 1948 کا دن تھا ۔دہلی کے پالم ائرہورٹ پر ایک جہاز روانگی کے لیے کھڑا تھا ۔ان میں وہ مسافر سوار تھے جو پاکستان ہجرت کر رہے تھے اور ان میں ہی ایک اٹھائیس سالہ نوجوان بھی اپنی بیوی اور کمسن بچی کے ساتھ شامل تھا ۔جس نے بہت محبت کرنے والے رشتوں ، باپ جیسے بھائی ، ماں اور بچپن کے دوست احباب سب چھوڑ کر پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔


خالی ہاتھ۔۔۔۔۔۔ ہمددر فاؤنڈیشن جو ہندوستان میں خوب پھل پھول رہی تھی اس سے کچھ بھی حصہ لیے بغیر کیونکہ وہ وقف ہندوستان کی جا چکی تھی ۔اس لیے حکیم محمد سعید نے لوگوں کے کہنے کے باوجود کہ خالی ہاتھ کراچی کی سڑکوں  کی خاک چھانوں گے ۔اس میں سے کچھ لینا مناسب نہیں سمجھا ۔بس ایک عزم ایک حوصلے اور بیوی بچی کا ہاتھ تھام نئی مملکت" اسلامی جمہوریہ پاکستان" نقل مکانی کر گئے ۔



پاکستان میں کراچی جمشید کواٹرز کی آخری کالونی "58اپر سندھ " جہاں وہ پہلے ہی اپنی رہائش کا بندوبست کر چکے تھے ان کا مسکن بنا جہاں فرنیچر نام کی کوئی شے نہیں تھی ۔یہاں تک کہ سر کے نیچے رکھنے کے لیے تکیے تک میسر نہیں تھے ۔


"بچوں !!! آپ نے جانا کہ وطن کی محبت میں قربانی ، ایثار اور مشقت سب کچھ برداشت کرنے کا نام ہی حب الوطنی ہے ۔"



حکیم محمد سعید ہندوستان سے ہمدرد کا وسیع کاروبار چھوڑ کر آئے تھے ۔جہاں ہر طرف ان پر محبت نچھاور کرنے والے رشتے موجود تھے ۔جہاں ان کی پرورش نہایت نازونعم میں ہوئی تھی ۔اور اب یہ حال تھا کہ نیا ملک ، انجان لوگ ،  بے سروسامانی اور معاش کی فکر ۔۔۔۔بیوی اور بچی کا ساتھ ۔محمد سعید گھر سے نکلے اور سوچنے لگے کہ کیا کریں کہ گھر کا نظام چلے ۔


وہ حافظ قرآن تھے تو سوچا کہ کسی اسکول میں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کا فریضہ انجام دیا جائے ۔مگر یہ کام بھی نہیں بنا یہاں تک کہ ایک اسکول کے چوکیدار نے تو ان کا ظاہری حلیہ دیکھتے ہوئے اسکول میں داخل ہی نہیں ہونے دیا ۔اب حکیم محمد سعید کراچی کی سڑکوں پر پیدل کام کی تلاش میں پھرنے لگے یہ وہ تھے جن کے پاس ہندوستان میں ایک سے ایک مہنگی گاڑیاں موجود تھیں ۔پیدل سفر کرتے جب بھوک زیادہ تنگ کرنے لگی تو بیگم سے ایک موٹا سا پراٹھا بنوا کے لے جانے لگے ۔


آخر کئی دنوں کی کوشش کے بعد انہیں ایک اسکول میں پڑھانے کا کام مل گیا ۔جس پر انہوں نے اپنے رب کا بہت شکر ادا کیا ۔اس دوران وہ کوشش کرتے رہے کہ بڑے بھائی کی خواہش کے مطابق طب کا خاندانی پیشہ اپنائیں ۔


مطب شروع کرنا مگر خالی ہاتھ  !!! یہ بھی ایک مشکل مرحلہ تھا خاصی بھاگ دوڑ کے بعد ایک کمرہ حاصل کیا جو بغیر پگڑی کے کسی طور نہیں مل پارہا تھا اور پگڑی دینے کے لیے رقم کہاں سے لاتے مگر سامنے بھی حکیم محمد سعید تھے جو عزم و ہمت کا پیکر تھے انہوں نے آخر کار بغیر پگڑی کے کمرہ حاصل کر ہی لیا ۔مگر یہ بغیر فرنیچر کے تھااب اس کے لیے بھی رقم موجود نہیں تھی ۔لہذا بارہ رپے ماہوار پر فرنیچر کرائے پر حاصل کر کے مطب کا آغاز کیا ۔اور یوں پاکستان میں ہمدرد کا آغاز ہوا ۔


اس کے بعد  دواسازی کا آغاز ہوا ۔اس کے لیے جگہ کا حصول یہ سب بہت مشکل مرحلے تھے جو درپیش تھے ۔ان سب سے لڑتے  مختلیف مراحل سے ہوتے ہوئے یہ سفر آگے بڑھتا رہا ۔


دہلی سے چلتے وقت حکیم محمد سعید کی والدہ نے انہیں رخصت کرتے وقت بہو کے ہاتھ میں ایک تکیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسے سنبھال کر رکھنا ۔ایک دن نعمت بیگم نے کسی خیال کے تحت اس تکیے کو ادھیڑ دیا تو اس میں سے کرنسی نوٹ برامد ہوئے ۔ماں تو پھر ماں تھی خالی ہاتھ جانے والے سب سے چھوٹے بیٹے کی مالی مدد کی نیت سے یہ طریقہ اختیار کیا ۔حکیم محمد سعید ماں کی اس محبت پر آبدیدہ ہو گئے ۔مشکل کے اس وقت میں اس رقم نے انہیں بہت سہارہ دیا ۔

دواسازی کا کام شروع ہوچکا تھا ۔اس کے لیے بھی جگہ کی ضرورت تھی ۔اس دوران حکیم محمد سعید مالی طور پر کافی مستحکم ہو چکے تھے ۔لہذا فرئیر روڈ پر ایک دوکان خرید لی اور یوں یہ سفر آگے بڑھتا گیا ۔


"بچوں !!! مستقل ہمت اور اپنے کاز سے مخلصی ایک ایسا وصف ہے جو کامیابی کو آپ کے قدموں تلے لے آتا ہے ۔جیسے حکیم محمد سعید نے تمام مشکلات کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور آخر کار کامیاب ہوئے ۔"

""


اس دوران کئی مخالفتوں کا شکار ہوئے ان کے مطب پر پولیس نے بھی دھاوا بولا ۔اور مطب کی جگہ کو غیر قانونی قبضہ قرار دیا مگر حکیم صاحب نے اس سب کا نہایت تحمل سے مقابلہ کیا ۔


ہمدرد کی مصنوعات کی دن بدن بڑھتی فروخت کی وجہ سے دواسازی کےلیے ناظم آباد میں ایک فیکٹری قائم کی گئی ۔اس کے لیے ان کی بیگم کا زیور تک بک گیا ۔اور یوں ہمدرد لیبارٹریز کا آغاز ہوا۔

پاکستان میں ہمدرد کے ترقی کرتے اور پھلتے پھولتے کاروبار کو والدہ کی خواہش پر انیس سو ترپین میں قوم کے نام وقف کر دیا ۔


1953 میں ہی انہوں نے بچوں کے لیے ایک رسالہ نکالا ۔جس میں بچوں کی تعلیم ، تفریح ، اور تربیت کا پورا دھیان رکھا گیا تھا ۔اس ماہنامہ کا نام " ہمدرد نونہال " رکھا گیا "۔بچوں یہ رسالہ آج بھی اسی شان اور معیار کے ساتھ ہر ماہ جاری ہوتا ہے ۔"


اس کے کچھ عرصے کے بعد جب پاکستان میں طب  یونانی کو غیر موثر قرار دینے کی قرار داد پیش ہوئی تو حکیم صاحب نے ملک کے تمام اطباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور باہمی رابطے کے لیے "اخبار الطب "جاری کیا ۔


حکیم محمد سعید کی تمام زندگی ایک مسلسل جدوجہد میں گزرتی نظر آتی ہے ۔طب کے فروغ کے لیے انہوں نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا ، اور ہمدرد طبیہ کالج قائم کیا ۔جس کا افتتاح 14 اگست 1958 میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کیا ۔ 


دن رات کی شبانہ روز محنت سے ان کی صحت بھی خراب رہنے لگی تھی ۔مگر اس کے باوجود وہ اپنے کام اور لوگوں کی فلاح کے لیے اپنے کام میں مشغول رہے 


 "پیارے بچوں حکیم محمد سعید بیماری کے باوجود اپنے مریضوں کو دیکھنے کے لیے پابندی سے مطب کرتے رہے اور ملک کے مختلیف شہروں میں قائم ہمدرد کے شفاءخانوں میں جہاں بے شمار مریض ان کے منتظر ہوتے اور حکیم محمد سعید کو دیکھتے ہی ان کے چہروں پر ایک رونق آجاتی ، آنکھوں میں امید کی شمع جھلملانے لگتی کہ ان کا مسیحا آگیا ہے ۔کتنے ہی ہاتھ ان کے لیے دعاوں کے لیے اٹھتے اور کتنے ہی لبوں پر دل سے نکلی دعائیں موجزن رہتیں ۔


حکیم محمد سعید جب چین کے دورے پر گئے تو واپس آکر انہوں نے ایک کتاب "میڈیسن ان چائنا" لکھی جو بے حد مقبول ہوئی ۔چینی دانشور اس کتاب کے لیے ان کے بہت شکر گزار ہوئے ۔

طب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 1966 میں "ستارہ امتیاز " سے نوازا ۔

اس کے علاوہ آپ کو اسلامک میڑیسن پرائز کویت 1982 میں بو علی سینا پرائز 2000 میں دیا گیا ۔

حکیم محمد سعید کو سعید ملت ، قائد نونہال ، سر سید ثانی اور شہید پاکستان کے خطابات دیے گیے ۔


حکیم محمد سعید نے اردو اور انگریزی کی 190کتب تحریر کیں اور پانچ سو سے زائد مختلیف موضوعات پر مضامین لکھے ۔

حکیم محمد سعید سچے محب وطن تھے اور ملک میں اردو زبان رائج کرنے کے بہت بڑے حامی بھی تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں اردو زبان کو ہی رائج کیا جائے ۔اس بارے میں وہ کہتے تھے ۔

"ہم نے پاکستان میں ابتدائی تعلیم کے لیے انگلیش میڈیم کی اجازت دے کر پاکستان کی اساس اور بنیاد کو نقصان پہنچایا ہے اور مغرب کی تہزیب کو ہوا دی ہے ۔

کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے ، مقام غیرت نہیں ہے کہ ہم پاکستان میں پچاس سال سے 27 رمضان اور قیام پاکستان کہ اہمیت کو بھول بیٹھے ہیں ۔اس سے بڑی بد بختی کیا ہوگی اور کیا ہو سکتی ہے ۔کہ ہم اللہ کی رضا رمضان قیام پاکستان کو ترک کرکے 14 اگست کو تھامے بیٹھے ہیں  "


حکیم محمد سعید نے مسلم اطباء کے ماضی میں انجام دیے گئے کارنامے اور تحقیقات جو بعد میں انگریزوں نے اپنے نام سے متعارف کروائیں ۔اس کے لیے بھی بہت کام کیا ۔خاص طور پر بابائے بصریات ابن الہیثم ۔۔۔۔ابو ریحان محمد بن البیرونی کی کتابوں کے نسخے حاصل کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی اور دنیا بھر سے ڈھونڈ کر ان قدیم نسخوں کو نکال لائے ۔


حکیم محمد سعید کو سیاست میں حصہ لینے کی بہت بار پیش کش ہوئی مگر آپ انکار کرتے رہے ۔


مسلسل کام اور نیند کی کمی نے انہیں ایک بار پھر بیمار کردیا تھا مگر وہ اسی طرح اپنے کام میں لگے رہے ۔

سعدیہ راشد( بیٹی ) کہتیں ہیں کہ آخری دنوں میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ" مجھے اپنی نیند میں سے ایک گھنٹہ مزید کم کرنا پڑے گا " میں نے کہا آپ یہ کیسے کریں گے ۔آپ تو پہلے ہی چار گھنٹے سوتے ہیں ، تین گھنٹے کی نیند لے کر آپ فنکشن وغیرہ میں کیسے شرکت کریں گے ۔کہنے لگے نہیں مجھے بہت کام ہے اس لیے ایک گھنٹہ کم کرنا ہی پڑے گا ۔

کام سے محبت اور لگن کا یہ عالم تھا ۔


1983 میں جب حکیم محمد سعید خانہ کعبہ میں تھے ۔اس وقت ان کے دل میں ایک ایسا شہر بسانے کا خیال آیا جو علم وحکمت کا منبع ہو اور جہاں تعلیم وتحقیق کی تمام تر سہولیات میسر ہوں ۔اب یہ ان کی زندگی کا مشن بن گیا ۔اس شہر کے لیے کراچی سے چند میل دور ایک ویرانے میں 260 ایکٹر زمین خریدی جہاں کے بارے میں شواہد تھے کہ محمد بن قاسم نے سب سے پہلے یہاں قدم رکھے تھے ۔وہ اپنی دھن کے پکے تھے۔ لاکھ مخالفتوں کے باوجود اس کام میں لگ گیے اور فیصلہ اپنے اللہ پر چھوڑ دیا ۔


دسمبر کی ایک سرد شام میں ملک کے دانشوروں اور عالموں نے اپنے اپنے نام کی اینٹ رکھی اور اس شہر کو بنانے کا کام شروع ہوا ۔اس میگا پروجیکٹ میں ایک بڑی جامعہ "ہمدرد یونیورسٹی "۔۔۔۔۔۔ہمدرد پبلک اسکول کے ساتھ ساتھ "ہمدرد لائبریری "کا قیام شامل تھا ۔


اب یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ نونہالوں کے مستقبل پر گہری نظر رکھنے والے ،بچوں کے ہر دل عزیز حکیم محمد سعید ان کی تعلیمی اور علمی ضروریات کے لیے کچھ نہ کرتے ۔۔۔۔تو اس کے لیے خاص "بیت الحکمتہ "نام سے لائبریری بنائی گئی ۔یہاں پر ہمدرد سینٹر کراچی سے حکیم محمد سعید کے ذخیرے کی تمام کتب کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے پبلشروں اور لائبریریوں سے کتابوں کی خریداری اور تبادلہ شروع کر دیا گیا ۔

حکیم محمد سعید اسے پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری بنانا چاہتے تھے ۔اس لائبریری کا افتتاح 11 دسمبر 1989 کو اس وقت کے صدر "غلام اسحاق خان "نے کیا ۔

بیت الحکمتہ کی یہ عمارت ایک لاکھ ستائیس ہزار مربع فٹ پر مشتمل ہے ۔یہ مکمل ائیر کنڈیشن ہے ۔یہاں پر کمپیوٹر ،ٹیلی فون ، انٹر کام ،فیکس ، اسکیننگ ،انٹر نیٹ ، آڈیو ویڈیو سیکشن  ،پروجیکٹر اوور ہیڈ پروجیکٹر،فلم ، مائیکروفش ، لیمی نیشن ، اور فوٹو کاپی کی تمام جدید سہولیات موجود ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی اس لائبریری میں عربی ،اردو، فارسی  ، اور انگریزی کی سوا چار لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں ۔اس کے علاوہ یہاں 64 زبانوں ہر مشتمل 359 ترجم قرآن کے نسخے بھی موجود ہیں ۔

اس لائبریری میں ایک شعبہ تراشہ جات کا بھی ہے ۔جہاں تقریبا گیارہ سو موضوعات پر تراشہ جات کی فائیلیں موجود ہیں ۔

حکیم محمد سعید نے 1988 میں بزم ہمدرد نونہال کا آغاز کیا ۔وہ خود زندگی بھر وقت کے پابند رہے تھے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ بچوں کو اس تربیت سے محروم رکھتے ۔انہوں نے یہاں بھی بچوں کو وقت کی پابندی کا درس دیا اور ہمیشہ یہ بزم وقت مقرر پر شروع کی جاتی رہی ۔

حکیم صاحب کو اس بات کا بڑا قلق تھا کہ پاکستان میں بچوں کے ادب پر مناسب توجہ نہیں دی جارہی ۔انہوں نے ہمدرد کے پلیٹ فارم سے اس کمی کو دور کرنے کی پوری کوشش کی ایک شعبہ نونہال ادب قائم کیا جس کے تحت بچوں کی کتب کی اشاعت کا آغاز ہوا ۔خود حکیم صاحب نے بھی بچوں کے لیے بہت سی کتابیں لکھیں ۔

حکیم محمد سعید نے بچوں کے لیے سب سے زیادہ سفر نامے لکھے ہیں ۔جبکہ بچوں کے لیے پہلا سفر نامہ لکھنے کا اعزاز ان کے رفیق خاص مسعود احمد برکاتی صاحب کو حاصل ہے ۔

حکیم محمد سعید سچے محب وطن قوم کادرد رکھنے والے ، اور نونہالان پاکستان کی فکر رکھنے والے عظیم انسان تھے ۔ان کی ساری زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے ۔

اس عظیم انسان کو جو دہلی کے ہنگاموں سے بچ کر نکل آیا تھا ۔آخرکار 17 اکتوبر 1998کی صبح جب وہ اپنے مریضوں کو دیکھنے آرام باغ مطب پہنچے تو ان پر تین طرفہ فائرئنگ کرکے شہید کر دیا گیا ۔

ان کی موت کوئی معمولی موت نہیں تھی ۔لاکھوں لوگوں کا مسیحا ان کے سامنے ہی اپنے ہی خون میں نہلا دیا گیا تھا ۔وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے ۔جنہوں نے تشکیل پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔

سترہ اکتوبر کا دن ایک تاریک دن تھا ۔لاکھوں گھرانوں میں صف ماتم تھا اور ہر آنکھ اشکبار تھی ۔

حکیم محمد سعید کی آخری خواہش تھی کہ " میں ایسی حالت میں فرشتہ اجل کو لبیک کہنا چاہو گا کہ میری آنکھوں کے سامنے ہمدرد اسکول اور الفرقان میں پانچ ہزار بچے تعلیم حاصل کر رہے ہوں ۔ہمدرد یونی ورسٹی ہزارہا جوانوں کو انسان کامل بنا رہی ہو ۔اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوز حق بلند کرنے کی تیاری میں کمر بستہ ہوں  "۔ 


پیارے بچوں یہ آپ کے اور ہمارے پیارے حکیم محمد سعید کی زندگی کے کچھ پہلو تھے ، جو یہاں آپ کے لیے بیان کیے گیے ۔ہمیں امید ہے کہ بچوں کے سچے ہمدرد کی خواہش کے مطابق آپ سب علم وعمل کی راہوں پر گامزن ہو گے ۔اور اپنے ملک ومزہب کے لیے آواز حق بن کر ابھریں گے ۔اللہ پاک آپ کا اور ہمارا حامی وناصر ہو ۔آمین 


   Rakshii wrire




 

Comments