Articl
عنوان :ہم اور ہمارے رنگ
ازقلم :رخشندہ بیگ
کراچی
آئیے احباب آپ سے ایک راز بیان کروں ،گو کہ یہ اب ایسا کوئی راز بھی نہیں جو اسرار کی تہوں میں پوشیدہ ہو ۔
بطور قوم ہم اور ہمارے رنگ دنیا کے ساتھ ساتھ اب ہم پر خود بھی آشکار ہیں ۔
لاکھ پہلو بچائیں ,ہزار نظرئیں چرائیں ,مگر ہم پاکستانیوں جیسی رنگ برنگی فطرت کی مالک قوم آپ کو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی دستیاب نہ ہو سکے گی ۔
گرگٹ تو رنگ بدلنے میں بس ویسے ہی شہرت یافتہ ہے ۔اصل رنگ بدلنے میں ماہر ہم نہ جانے کیسے اس شہرت واعزاز سے محروم رہے ۔
اس سلسلے میں بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں بھی اغیار کی کوئی نہ کوئی سازش کارفرما نظر آتی ہے ،کہ ہزار رنگ داستاں کی طرح ہر موقع کی مناسبت سے بھیس بدلنے میں ماہر ،ہماری اس خصوصیت کا کہیں کوئی ذکر خیر ہی نہیں ملتا ۔
ارے صاحب آپ کو ہمارے رنگ دیکھنے ہیں تو آئیے زرا کچھ نظارے کرواتے ہیں ۔پانچ سالہ دور حکومت (جو کسی کسی منتخب رہنما کو ہی پورا کرنا نصیب ہوتا ہے ۔)کے بعد ہونے والے الیکشن کے دوران ہم سب اپنی سیاسی بصارت وبصیرت کے وہ وہ جوہر دکھاتے ہیں ،بلکہ اپنی پسندیدہ جماعت وامیدوار کی وہ وہ خصوصیات زیر بحث ہوتیں ہیں ،جن سے وہ بیچارے بھی واقف نہیں ہوتے ۔دفاتر سے لے کر ہوٹلوں ،چائے کے ڈھابوں ،بس اسٹاپوں سے لے کر نجی محفلیں اور بعض اوقات ایک ہی گھر میں رہنے والے بہن بھائی ،شوہر وبیوی ،والد واولاد اپنی سیاسی وابستگیوں کو لے کر ایک دوسرے سے دست وگریباں نظر آتے ہیں ۔
اللہ جھوٹ نہ بلوائے ہم نے تو اس دوران بہت سے رشتے ان سیاسی وجوہات کی بنا پر بنتے اور بگڑتے بھی دیکھیے ہیں ۔جمن پہلوان دودھ والے کی مثال تو ہمارے سامنے کی ہے ،جو ملکوں کی لڑکی کے فراق میں دو سال سے آہیں بھرتا دودھ کڑھائی میں چڑھا کر محبوب کے فراق جاں گسل میں گم، دودھ اتنا پکاتا کہ اس کے جیسا گاڑھا دودھ کہیں اور دستیاب نہ ہوتا اور اس طرح ملکوں کا رشتہ قبول نہ کرتے ہوئے کیا جانے والا انکار اس کے روزگار میں اضافہ کا زریعہ بن گیا اور ساتھ ہی اونچی آواز میں چلنے والے عشقیہ غم زدہ گانوں کی بدولت ،دل جلوں کا ہجوم شہر کے کونے کونے سے جوق در جوق اس کی دوکان کا رخ کرکے ،گاڑھا ہجر عشق کی آنچ پر پکتا دودھ نوش جان کرکے اپنی صحت اور پہلوان کی آمدنی میں اضافے کا باعث بن گیا۔ ان ہی دنوں الیکشن کا میلہ سجا جس میں ملکوں اور جمن پہلوان کی ایک ہی جماعت سے شدید وابستگی نے سارے فرق مٹا کر ہجر کے ماروں کو وصل کی عظیم خوشی سے ہمکنار کیا.
ایک بڑا شدید رنگ ہم پر اپنی پوری شدت سے ظاہر ہوتا ہے کرکٹ میچ کے دوران ،خاص طور پر جب بات ہو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کی ،ہر طرف ایک شدید گرمجوشی نظر آنے لگتی ہے ۔ہر کوئی سب سے بڑا ملک کا وفادار اور دین دار بن جاتا ہے ۔سوشل میڈیا پر اپنے ملک کی عزت وناموس پر سر کٹانے اور میچ کی ہار یا جیت کو اپنے وطن کی عزت وغیرت قرار دیا جانے لگتا ہے ۔ہر جانب ایسا عالم نظر آتا ہے جیسے پوری قوم حالت جنگ میں ہو ۔خواتین سجدوں میں گری زاروقطار آنسو بہاتی جیت کے لئے دعائیں مانگتی پائی جاتی ہیں ،جبکہ ابا کے لاکھ پیٹنے پر بھی مسجد کا رخ نہ کرنے والے وقفے کے دوران نماز اور مولوی صاحب سے دعا کے لئے مسجد کی جانب دوڑتے نظر آتے ہیں ۔اور اگر یہ مقابلہ ہو ورلڈ کپ کے دوران تو میچ ہارنے کی صورت میں اسپتالوں کے کارڑیو وارڑز اور ایمرجنسی وارڑز بھر جانے کی صورت میں ایک ایمرجنسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
اس سب کے علاوہ ربیع الاول میں ہم سب عاشقان رسول بن کے پورے شوق اور عقیدت سے نعتیں پڑھتے اور سنتے پائے جاتے ہیں ۔اسی طرح محرم میں نوحے اور غم حسین میں ڈوبے غم کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ۔رمضان میں سب پکے نمازی دین دار اور بڑی عید پر ہر کوئی چھرے تیز کرکے قصائی بنا نظر آتا ہے ۔جس نے کبھی گھر میں ایک سیب بھی نہیں کاٹا ہوتا ،وہ اس سیزن میں چھرا اور مڈی اٹھائے جانور گراتا اور دھاڑی لگاتا نظر آئے گا ،اور اس طرح اپنی مہارت اور قابلیت کے قصے سنائے جاتے ہیں جیسے ان سے بڑا ماہر قصاب تو اس روئے زمین پر کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ہو گا ۔ہر جانب گائے بکروں کی تصاویر اور کارنامے گردش کرتے نظر آتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر ہر جانب اسی رنگ کی بہار محرم کی آمد تک اپنا رنگ جمائے نظر آتی ہے ۔
ایک اور رنگ بھی ہے ،جو آج کل پوری شدت سے پورے پاکستان پر چھایا نظر آتا ہے ۔جی ہاں آپ سمجھ ہی گئے ہونگے ،وہ رنگ ہے یوم آزادی کا رنگ ۔۔۔۔آج کل ہر جانب سبز وسفید رنگ اپنی بہار دکھا رہا ہے ۔۔۔۔ہر جانب سبز ہلالی پرچم کی بہار ہے ۔دوکان دار سیزن لگا رہے ہیں ۔جگہ جگہ اسٹال لگے ہیں ،جہاں اس دن کی مناسبت سے کپڑوں سے لے کر بیجز ،ربن ،دستانے ،انگوٹھیاں ،چوڑیاں ،اسٹیکر اور نہ جانے کیا کیا دستیاب ہے ۔مگر ان میں سب سے خاص ہے ایک باجا ۔۔۔۔جی ہاں ایک باجا جو ہر سائز میں دستیاب ہے اور اس کی سب سے خاص بات ہے اس کی وہ خدمت جو سوتے ہوئے غافل عوام کو صور اسرافیل کی طرح اٹھانے کے لئے ہے ۔اس کے موجد کا نام ہماری تاریخ میں سنہرے الفاظ میں تحریر کیا جائے گا ۔اس باجے کے سبب وہ عوام جو کسی بھی طرح خواب خرگوش سے نکلنے پر رضامند نہیں تھی، وہ بھی اب کانوں کو ہاتھ سے تھامے اس رنگ میں حب الوطنی کا مظاہرہ کرتی ، اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتی جواب غزل کے طور پر تیرے گھر کے سامنے ہم بھی باجا بجائیں گے کہتی اس جشن میں شریک نظر آتی ہے ۔
تو احباب یہ تھے کچھ رنگ جو باحیثیت قوم ہم پر پوری شدت سے طاری ہوتے ہیں اور اپنے جلو میں کئی سربستہ راز لئے ،جو کہ یقین ہے کہ ہمارے لئے اب راز نہیں کیونکہ یہ سب ہمارے ہی رنگ ہیں اور ہم اس کے پاسباں ہیں ۔اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ اغیار کی سازش کے طفیل ابھی تک ہم ہمارے رنگوں سمیت کسی اونچے مقام پر پہنچنے سے قاصر کیوں ہیں ۔
#Rakshi write
Buht behtreen
ReplyDelete