Kids Story

 



عنوان :ببلو میاں کا روزہ 


مصنفہ :رخشندہ بیگ


خبر گرم تھی کہ اس سال رمضان مبارک میں باسط میاں عرف ببلو میاں کی روزہ کشائی کی جائے گی ۔


سارے بہن بھائی مسکرا مسکرا کر ببلو میاں کو دیکھتے اور پیشگی مبارک باد دیتے ۔ ببلو میاں کے چچا اور ان کے کزن ارسطو کو جب یہ خبر ملی تو وہ بھی ملنے اور مبارک باد دینے چلے آیے ۔

اب حال یہ تھا کہ سب ہی جاننے والے جو ببلو میاں اور ان کی خوش خوراکی سے واقف تھے ، وہ ببلو میاں کو روزہ رکھتے اور اس روزے کے دوران ان کے صبر کا مشاہدہ کرنے کے لیے بے تاب تھے ۔


"امی !! وہ گرمی بہت ہے تو کیوں نہ میری رسم روزہ کشائی اگلے سال تک موخر کر دی جائے ۔"

ببلو میاں نے ٹھنڈے ٹھار شربت کے گلاس پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اپنی تجویز کے حق میں امی کی حمایت چاہی ۔


"ارے ببلو کیا اتنے بڑے لوٹھا ہو گئے ہو ،پورے گیارہ برس کے ،جب کہ تمہارے تمام بہن بھائیوں نے آٹھ نو برس کی عمر میں روزہ رکھنا شروع کردیا تھا ۔ اب مزید دیر نہیں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے ۔"

امی نے غصہ کرتے ہوئے انہیں حقیقت حال سے آگاہ کرتے ہوئے زبانی چھترول سے کام لیا ۔

اب اس کے بعد کچھ مزید کہنے کا مطلب امی جی کی چپل سے اپنی خاطر کروانا تھا ۔


رمضان مبارک کی آمد کا ہر سو شور تھا ۔سب ہی گھروں میں کیا بچے اور کیا بڑے، اپنے اپنے انداز میں اس ماہ صیام کی رونقیں اور برکتیں سمیٹنے کی تیاری کر رہے تھے ۔

کہیں خصوصی صاف صفائی ہو رہی تھی، تو کہیں راشن کی لسٹ بن رہی تھی ۔سال بھر کی زکوت کا حساب نکالا جارہا تھا ،صدقات اور خیرات دینے کے لیے ہاتھ وسیع کیا جارہا تھا ۔

کئی گھروں میں پہلے سے ہی مزے دار رول سموسے ،کباب ،نگٹس فریز کیے جارہے تھے ۔سویوں اور پھینیوں کے تحائف ،شربت کی بوتلوں اور کجھوروں کی خریداری اپنے اور پاس پڑوس میں ہدیہ بجھوانے کے لیے دوکانوں پر رش لگا تھا ۔

آخرت کمانے والے بھی جانمازوں کو دھو کر عطر لگا رہے تھے ۔قرآن پاک کی تلاوت اور صاف سھترے لباس تیار کرکے رکھے جارہے تھے ۔غرض کہ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اس ماہ کے استقبال کی تیاریوں میں مگن تھا ۔

ہر جانب ایک سرخوشی اور گہما گمہی کا عالم تھا ۔تراویح کی تیاری سحرو افطار کی رونقوں کے منتظر سب رمضان کا چاند دیکھنے کو نظریں آسمان اور ٹی وی پر لگائے بیٹھے تھے تو کچھ مساجد سے ہونے والے اعلان کے منتظر تھے ۔


ببلو میاں اپنے ہی خیالوں میں مگن ہر کھانے کی چیز کو ایسے حسرت سے دیکھ رہے تھے ۔جیسے یہ آخری بار ان کی آنکھوں میں سمائی ہو ۔

ہر کھانا اور ناشتہ یہ سوچ کر کر رہے تھے جیسے کہ بس یہ آخری کھانا ہو ۔اس کے نتیجے میں اور لوڈ ہو کر پیٹ پکڑے بیٹھے تھے ۔

سب رمضان کا چاند دیکھ کر نوافل ادا کر رہے تھے ،جبکہ ببلو میاں پیٹ کے درد کے سبب دہائیاں دیتے پھر رہے تھے ۔

اب اس سب کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکلا ۔


سحری میں گرما گرم پراٹھے ،دودھ سویاں ،دہی ،انڈے میٹھی لسی دیکھ دیکھ کر ببلو میاں کے منہ میں کلو کلو پانی آرہا تھا ،مگر امی کا حکم تھا کہ آنے والے جمعہ مبارک کو ان کی روزہ کشائی کی تقریب ہے ۔اس وجہ سے ان کی بسیار خوری کی عادت چھڑوانے جمع پیٹ درد کے باعث وہ ان میں سے کچھ بھی نہیں کھا سکتے ۔


"واہ واہ کیا پراٹھے ہیں " بڑے بھائی نے تر بتر ورقی پراٹھوں کا لقمہ لیتے ہوئے ببلو میاں کی جانب دیکھا ۔

بہن کیوں پیچھے رہتی " بھائی جان یہ انڈوں کا خوگینہ بھی تو کس قدر لاجواب ہے ۔پیٹ بھر گیا پر نیت نہیں بھر رہی " لسی کا گلاس بھرتے ہوئے ببلو کی جانب دیکھتے یہ جملے بڑی بہن کے تھے ۔

دوسری جانب ببلو میاں اپنے سامنے سادہ دہی اور ایک پھلکا رکھے بیٹھے حسرت سے سب کی بھری پلیٹوں کو خالی ہوتا دیکھ رہے تھے ۔

اس بار نہ ان کی معصوم صورت پر کسی کو رحم آرہا تھا اور نہ ہی چھوٹا ہونے کا فائدہ دیا جارہا تھا ۔

افطار کے وقت بھی مزے مزے کے پکوان سے دسترخوان سج چکا تھا ۔امی نے ایک بڑی پلیٹ میں تمام سامان پیالیوں میں سجایا اور ببلو میاں کو پکڑادیا ساتھ ہی ایک چھوٹے جگ میں شربت ڈال کر ان کے آگے رکھا ۔

ببلو میاں کی تو باچھیں چر گئی ۔امی دنیا کی سب سے اچھی ماں لگنے لگی اور دو دن سے جو باغیانہ خیالات دل میں اچھل کود مچا رہے تھے، وہ اپنی موت آپ مر گئے ۔مگر یہ بس لمحوں کی ہی خوشی تھی ،دوسرے ہی لمحے امی کی آواز نے ان کو خواب خرگوش سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا ۔

'ببلو یہ افطاری کونے والی آپا جی کے ہاں دے آؤ ۔۔۔وہ بیچاری بیواہ ہیں ، اپنے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کا بھی خیال رکھنا ہمارے مذہب کی تعلیمات ہیں ۔خاص کر وہ پڑوسی جو ضرورت مند بھی ہوں ۔"

"مگر امی روزہ کھلنے میں کم وقت رہ گیا ہے "

ببلو نے بہانہ بنا کر افطاری روکنی چاہی ۔۔۔۔پر امی کی گھوریوں کی تاب نہ لا کر جانا ہی پڑا ۔

افطار میں بھی سب کو مزے دار افطاری کرتے دیکھ اور اپنی پلیٹ میں صرف فروٹ اور ایک گلاس شربت دیکھ کر ببلو کی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے ۔


اللہ اللہ کر کے یہ پانچ دن گزرے اور رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کی شب شروع ہوئی ۔

رات ہی گھر مہمانوں سے بھر چکا تھا ۔چچا اور ان کے بچے ،بڑی اور چھوٹی پھپھو اپنے بچوں کے ہمراہ خالا کی فیملی نانی جان اور دونوں ماموں ۔۔۔سب کے درمیان ببلو میاں کسی شہزادے کی طرح بیٹھے ہوئے خود کو خاص الخاص محسوس کر رہے تھے ۔


سب کی دعائیں لینے کے بعد اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ محفل جمائے ببلو میاں بڑے اکڑے اکڑے بیٹھے تھے ۔نانی جان نے جو ہار انہیں پہنایا تھا وہ ابھی تک ان کے گلے میں پڑا اپنی بہار دکھا رہا تھا ۔

کچھ دیر بعد ببلو میاں کو محسوس ہوا کہ تمام کزنز انہیں کچھ عجیب سی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔پہلے تو وہ وہم سمجھے مگر جب ارسطو نے انہیں پچکارتے ہوئے کہا

" ڈر تو نہیں لگ رہا بس آدھی رات سے دوسرے دن شام تک کی تو بات ہے ۔کھانا پینا چھوڑنا کوئی ایسا مشکل بھی نہیں "

اب تو انہیں لگا جیسے وہ کوئی قربانی کے بکرے ہوں اور وہ سب ان کی قربانی کے لیے جمع ہوئے ہوں ۔انہوں نے گھبرا کر گلے میں پڑا ہار اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بڑے تدبر سے بولے ۔۔۔۔" ہاں ہاں میں کیوں ڈروں گا بھلا تم نے مجھے کیا بچہ سمجھ رکھا ہے جو ایسی باتیں کر رہے ہو ۔"

"بچہ تو نہیں مگر کچا سمجھا ہے ۔وہ بھی بھوک کا " سب نے ایک زور دار قہقہ لگاتے ہوئے کہا ۔

"ارے کیوں میرے بچے کو پریشان کر رہے ہو ۔"

نانی جان نے آکے سب کی کلاس لی اور مزے دار لڈو اس کے منہ میں ڈال کر ماتھا چوم لیا ۔


فجر سے ایک گھنٹہ پہلے ہی ببلو میاں کو اٹھا دیا گیا ۔تہجد پڑھوا کے انہیں دسترخوان پر بٹھا دیا گیا ۔لمبا چوڑا دسترخوان قسم قسم کی نعمتوں سےسجا ہوا تھا ۔

آج ہر کوئی انہیں کھلانے پر بضد تھا ،مگر نا جانے کیا بات تھی کہ پچھلے چھ دن سے جو ان کے کھانے میں کٹوتی کی جا رہی تھی ،تو آج چاہنے کے باوجود وہ بہت سا کھا نہیں پارہے تھے ۔

کزنز مستقل اشارے کر رہے تھے اور جملے بھی کس رہے تھے ۔"کہ کل شام تک کچھ کھانے کو نہیں ملے گا ۔لہذا جتنا کھا سکتے ہو کھا کر اونٹ کی طرح ذخیرہ کرلو "


نہیں نہیں کرتے بھی وہ کافی کچھ کھا چکے تھے اب نمکین لسی کا گلاس پیتے ہوئے اٹھ گئے کہ دانت برش کرکے وضو وغیرہ کرلیں تاکہ نماز فجر کے لئے مسجد جاسکیں ۔


نماز پڑھنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کر کے وہ لیٹ گئے کہ کچھ دیر سو کر گزار لی جائے ۔مگر پیٹ میں عجب قسم کی گڑ گڑ ہو رہی تھی ،جو کسی صورت چین نہیں لینے دیتی تھی ۔

اب جو ان کے بیت الخلاء کے پھیرے لگنے شروع ہوئے تو دن کے بارہ بجے تک وہ نڈھال پیٹ کو پکڑے پڑے ہوئے تھے ۔

گھر میں بھی سب ان کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے ۔ببلو میاں کی تو آواز بھی نہیں نکل رہی تھی ۔


سارے لوگ جو ان کی خوش خوراکی اور بھوک کے کچے پن سے واقف تھے ۔اب یہ حالت دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔

پیاس کے مارے ببلو میاں کا برا حال تھا ۔ابھی تو بامشکل ظہر کا وقت ہوا تھا ۔

"اف میرے اللہ یہ مغرب تک کا وقت کیسے گزرے گا "

وہ دل ہی دل میں خود سے ہی سوال کرتے ادھر ادھر دیکھتے اور پھر چپ ہوجاتے ۔

ظہر پڑھ کر انہیں پھر سے ٹھنڈے کمرے میں لٹا دیا گیا تھا ۔پیٹ کے درد میں بھی اب آرام آ چکا تھا ۔

ببلو میاں آنکھیں موندے لیٹے ہوئے تھے ۔اس وقت بہت سے مناظر ان کے ذہن میں روشن ہو رہے تھے ۔وہ یاد کر رہے تھے کہ کس طرح وہ اسکول میں اپنا لنچ کبھی کسی سے شئیر نہیں کرتے اور نہ ہی کبھی کھانے پینے کی قدر کی تھی ۔

اسکول میں ایک بچہ حماد تھا ،جو اکثر ہی کچھ کھانے کو نہیں لاتا تھا اور نہ ہی اس کے پاس پاکٹ منی ہوتی تھی کہ بریک میں کچھ خرید لے ۔کلاس کے دوسرے بچے جب دیکھتے کہ وہ بریک میں اٹھ کر باہر جارہا ہے تو سمجھ جاتے کہ شرمندگی کی وجہ سے وہ لنچ میں شامل نہیں ہو رہا ۔

ایسے میں وہ اسے ذبردستی اپنے ساتھ لنچ شئیر کرواتے ۔

مگر ببلو میاں نے کبھی اپنا لایا یا خریدا کچھ بھی شئیر نہیں کیا ۔

انہیں تو صرف اپنا پیٹ بھرنے سے غرض ہوتی تھی ۔مگر آج جب وہ خود بھوک کی تکلیف سے گزر رہے تھے تو انہیں احساس ہو رہا تھا کہ وہ کتنی خود غرضی کا مظاہرہ کرتے رہے تھے ۔جب کہ ان کے دوسرے ساتھی کس اعلی ظرفی سے حماد کو کچھ بھی جتائے بغیر اس کا خیال رکھتے تھے ۔

ایسی ہی بہت سے واقعات انہیں یاد آرہے تھے اور وہ اپنے آپ سے ہی شرمندگی محسوس کر رہے تھے ۔

یہی سب سوچتے ہوئے وہ نا جانے کب نیند کی وادیوں میں گم ہوگئے ۔

عصر کے وقت امی نے انہیں اٹھایا تو وہ اپنے آپ کو نہایت ہلکا پھلکا اور پر سکون محسوس کر رہے تھے۔

عصر کے بعد انہیں شیروانی پہنائی گئی اور سب نے ان کے گلے میں ڈھیروں ہار پہنائے ۔

بہت سارے تحائف بھی انہیں دیے گئے ،اور سب کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر جب وہ درود شریف پڑھ کر دعا کر رہے تھے تو اس وقت انہوں نے خود سے بھی ایک عہد کیا ۔۔۔۔آئندہ وہ اتنا ہی کھائیں گے جتنا ضروری ہوگا ۔ساتھ ہی وہ میسر وسائل سے ان لوگوں کی بھی مدد کریں گے جو اس کے مستحق ہیں ۔


 مسجد سے موذن کی اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ ہی انہوں نے روزہ کھولنے کی دعا پڑھی اور کجھور کھا کر روزہ افطار کرلیا ۔


#Rakshi write

Comments