سرخ گلاب
عنوان :سرخ گلاب
مصنفہ :رخشندہ بیگ
افسانہ
چوند روشنیوں سے جلتی ہوئی اس کی آنکھوں نے کچھ لمحے اس تاریکی میں سکون سا محسوس کیا ۔
اس نے آنکھیں موند لیں گرم سیال مادہ سنہری آنکھوں سے بہہ نکلا ۔ جلتی آنکھوں کو گویا قرار ملا ، مگر بے قرار دل کی بے سکونی میں اضافہ ہونے لگا۔
چلتے چلتے ماضی کے در وا ہوئے اور وہ خوشبو سے مہکتے لمحات میں داخل ہو گیا ۔
"سنو !! سرخ گلاب تمہارے انتظار میں رنگ بدلتے جارہے ہیں ۔جدائی کا زرد رنگ ان کی سرخی پر غالب آتا جا رہا ہے ۔اس سے پہلے کہ بہار کے رنگ وروپ پر خزاں شب خون مار دے ،تم لوٹ آؤ ۔"
اس نے مسکراتے ہوئے اس کا میسج پڑھا اور موسم سرما میں اس برف سے بھری سڑک پر محبت کے ہزاروں رنگ جلوہ گر ہو گیے ۔
ظالم برف کی سفیدی اور پردیس کی بے مہری یک دم کسی بہت اپنے سے احساس کے ساتھ مہک اٹھی ۔
"دسمبر آگیا ہے تو اداس کیوں ہو جاناں
نئےسال کے ساتھ میں بھی لوٹ آؤ گا
دسمبر کوئی جدائی کا استعارہ تو نہیں
رت بدلے گی ساتھ میں بھی لوٹ آؤ گا"
اس نے جوابی میسج سینڈ کیا اور یخ پڑتے ہاتھوں کو جیکٹ کی جیبوں میں ڈال کر گرم کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔سفر بس اختتام پر تھا ،چند قدم کی دوری پر منزل کھڑی مسکرا رہی تھی ۔
نہ جانے کس چیز سے ٹھوکر کھا کر وہ لڑکھڑایا ۔۔۔۔بے مہر برف کسی اداس بیوہ کی طرح کرلاتی تھی اور تیز ہوا سسکیاں بھرتی, نوحے پڑھتی، اس کے ساتھ سفر میں تھی ۔گلابوں کا شہر اس کی محبت کا امین ،گرد راہ بن کر اسے ہاتھ تھام کر روک لینا چاہتا تھا ۔گزشتہ کئی برسوں سے یہی تو ہو رہا تھا ۔مگر وہ کب رک سکا !!
"شہروز !! کیا جانا بہت ضروری ھے ؟"
گھر کے پچھلے باغیچے میں اپنے لگائے گلابوں کے درمیان ،اداس آنکھوں میں، آس کے کچھ دیپ جلائے لرزتے لبوں سے ادا ہوتے سوال نے، اسے بے بسی سے اپنے حصار میں لیا ۔اچانک ایک خار نے اس کے لہراتے قرمزی دوپٹے کو تھام لیا ۔جیسے کہنا چاہ رہا ہو ۔۔۔۔"مسافر سے وہ سوال مت کرو ،جس سے وہ منزل کا راستہ بھول بیٹھے ،صرف کہانیاں ہی تو نہیں !! کچھ سوال بھی تو مسافروں کے بھٹکنے کا سبب بن جاتے ہیں ۔"
"ماہی !! بس دو سال ہی کی بات ہے ۔پھر ہم ہو گے اور ہمارے حسین خوابوں کی تعبیر "
اچانک وہ سسک پڑی دوپٹہ چھڑاتے ہوئے نوک خار سے انگلی زخمی کر بیٹھی تھی ،یا جدائی کا کرب آنکھ میں نمی بھر لایا تھا ۔۔۔کون جانتا تھا !!
دسمبر تو ویسے ہی اداس کر دیتا تھا ۔۔۔۔۔شاید یہ اداسی اسے وراثت میں ملی تھی ۔ابو بھی تو ہمیشہ دسمبر کے آتے ہی لمبی اور گہری چپ کا شکار ہو جاتے ۔ملک کے دولخت ہونے کے تکلیف دہ واقعات کے چشم دیدہ پل گویا ہر برس نئے سرے سے ماتم کناں ہونے لگتے ۔۔۔۔۔
"ماہی !!میرا انتظار کرنا ،"نکاح کے خوبصورت بندھن کا حق جتاتے, وہ بے اختیار اس کے ماتھے پر اپنے پر حدت لب ثبت کرگیا ۔اور ڈوبتے دل کے ساتھ سہمی ہوئی مسکراہٹ نے اسے الوداع کہا ۔
پر کون جانے کس نے کس کو الوداع کہا تھا !!
پاؤں کے چھالے سفر کی مشقتوں کے گواہ تھے ۔مگر وہ رک نہیں سکتا تھا ۔جانتا تھا کہ انتظار پہلے ہی بہت طویل ہو چکا تھا ۔واپس بھی جانا تھا ۔دونوں شاہین بے تابی سے اس کے منتظر تھے ۔ منزل کی جانب اڑان بھرنے سے پہلے حاصل شدہ کامیابی کی خوشی سے لبریز ،اس کے دو بازو اس کے شیر جوان رخصت لینے کے لیے بے تاب تھے ۔اس کے تڑختے لبوں پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔
رات سرمئی سے گہری سیاہ ہو چکی تھی ۔راستے میں مہکتے گلابوں کے بکے کارنر نے بہت کچھ یاد دلادیا ۔اس کے قدم بے اختیار رکے اور خوشبو ومحبت کی نشانی سرخ گلابوں کو ہمراہ لیے وہ پھر چل پڑا ۔۔۔۔مگر اب کہ اس کی وہ آخری گفتگو اس کے ہمراہ تھی ۔
شہروز وطن واپس جانے اور خاص طور پر ماہی سے ملنے کی خوشی سے سرشار تھا ۔بہت سی خریداری کرکے وہ لوٹا، تو سخت سردی کے باوجود دل میں ملن کی چاہت نے روشنی اور حرارت کر رکھی تھی ۔اچانک فون کی بیل ہوئی ،اسکرین پر ماہی کا نام دیکھ کر وہ مسکرادیا ۔۔۔۔مگر اس وقت !! زمینی فاصلوں نے دن رات کے فرق کو بڑھا دیا تھا ۔اس خطہ میں غروب ہونے والا آفتاب کافی پہلے اس کے ملک میں طلوع ہو کر روشنی پھیلا چکا تھا ۔
اس نے لمحے میں یہ سوچتے ہوئے فون آن کرلیا ۔دوسرے ہی لمحے ماہی کی گھٹی گھٹی آواز اس کی سماعتوں تک پہنچی ۔
"شہروز !! میری بات سنو ۔۔۔ہم یہاں درندوں کے حصار میں ہیں ۔"
ماہی ۔۔۔ماہی کیا ہوا !! کہاں ہو تم ؟" شہروز نے بے تابی سے سوال کیا ۔
میرے سامنے یہ تیس معصوم بچے آنکھوں میں خوف وہراس لیے سہمے کھڑے ہیں ۔۔۔باہر وقفے وقفے سے موت گونج رہی ہے ۔۔۔وحشیانہ نعرے اور بے بس چیخوں نے اس مکتب کو قتل گاہ بنادیا ہے ۔"
"ماہی ""وہ کرب سے چیخا ۔
"مت بولو ۔۔۔کچھ مت بولو ۔۔۔۔بس سن لو میری بات کہ مہلت شاید کم ہے ۔۔۔۔یہ ایک کھڑکی ہے ،پچھلی جانب کی ،میں بچوں کو اس سے باہر نکال رہی ہوں ۔۔۔۔۔یہ معصوم پھول مرجھانے نہیں چاہیے ۔ان سے تو یہ وطن مہکنا ہے ۔"
وہ پھولتی سانس کے ساتھ ایک ایک بچے کو بہت خاموشی سے باہر کی جانب اتار رہی تھی ۔قاتل قدموں کی چاپ قریب آتی جارہی تھی ۔ظالم موت تقسیم کرتا ایک ایک دروازہ گراتا جارہا تھا ۔
"جلدی سب نیچے ہوکر کوریڈور کے پار نکل جاؤ ۔وہاں پاک آرمی کے سپاہی موجود ہیں ۔"
خاکی وردی کی جھلک نے اسے سکون بخشا کہ کوشش بار آور ثابت ہوئی تھی ۔
"سنو قاتل چاپ اس دروازے تک پہنچ چکی ہے ۔"آخری بچے کو باہر نکال کر اس نے بے خوفی سے کہا ۔
" تم بھی باہر نکل جاؤ جلدی کرو ماہی "
اچانک ایک خوفناک دھماکے کی آواز کے ساتھ ،چیختے سوال کرتے وحشت سے پر لہجے گونجے ۔کھلی کھڑکی اور خالی کلاس روم دیکھ کر وہ اس پر پل پڑے ،موت کے قہقہوں میں آخری آواز کلمہ طیبہ کی تھی جو اس تک پہنچی ۔
سرخ گلاب لیے وہ اس مہکتی تربت تک پہنچ چکا تھا ۔اس کی ماہی سکون کی ردا اوڑھے زیر زمین سو چکی تھی ۔۔۔۔اپنی جان قربان کرکے ظالم خزاں سے بہار کی حفاظت کی تھی اور خوب کی تھی ۔
نم آنکھوں سے عقیدت کے گلاب اسے پیش کرکے وہ اسے بتارہا تھا ۔
"تمہارا مشن میں نے پورا کرنا تھا ۔یہی وعدہ لیا تھا نا تم نے!! ،دیکھ لو آج وہ دونوں یتیم اور بے سہارہ بچے ,تمہارے جانے کے بعد جن کی ذمے داری لی تھی اپنے مقام پر پہنچ گیے ہیں ۔وطن کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہیں ۔دو مزید ادھ کھلے پھول گود لے لیے ہیں ۔اب وہ فصل بہار ہو گی جسے اندیشہ زوال نہ ہو "
رات مسکرا رہی تھی ،ایک نئی صبح ہونے کو تھی ۔آنکھوں میں چمک اور دل میں جذبہ جنوں لیے وہ واپسی کی راہ پر گامزن تھا۔
واہ خوب
ReplyDeleteBuht hi behtreen
ReplyDeleteبہت عمدہ ۔۔۔ آنکھیں نم ہیں ۔
ReplyDelete