Posts

Afsana

Image
افسانہ  عنوان۔:آدھی حقیقت آدھا فسانہ  رخشندہ بیگ اولین بہار کے خوشگوار دن ،مہکتی سی ہواؤں میں گھلی سبزے کی مہک اور آسمان پر بکھرے بادلوں کے حسین نقش ونگار ۔ جہاں تک نظر جاتی قدرت کے حسین جلوے بکھرے نظر آتے ۔درختوں پر کھلے شگوفوں سے اٹھکیلیاں کرتی  مست خرام ہواؤں کے سنگ ہمارا سفر جاری تھا ۔ اب آپ لوگوں سے کیا پردہ !! دراصل میں کافی سست ہو چکا ہوں۔پرسکون ماحول نے مجھے آرام طلب بنادیا ہے ۔ پاس سے گزرتی بس کے پیچھے لکھا ہے" نصیب اپنا اپنا "اس نعمت کو میں بھی کچھ ایسا ہی تصور کرتا ہوں ۔ دو دن پہلے کی بات ہے ۔اس دن بھی شام اسی طرح مہک رہی تھی ۔فیضی بھی بہت خوش تھا ۔خوب ہلا گلا اور موج مستی ۔۔۔مگر مجھے آثار کچھ اچھے نظر نہیں آرہے تھے ۔موٹو بھی کچھ سہما ہوا محسوس ہوتا تھا ۔اس کا  بڑا سا ڈیل ڈول، جس پر وہ غرور سے اکڑا دکھائی دیتا تھا ۔اور اپنی گھٹیا سی ہنسی سے سب کا مذاق اڑاتا رہتا تھا ۔آج وہی اس کے گلے کا پھندا بن چکا تھا ۔ کچھ دیر میں من چلوں نے ایک طرف کھڑے اس کے وجود کو کھوج نکالا ۔ناجانے کب کب کا دبا غصہ تھا، جو وہ اس پر نکالنے لگے ۔بات یہاں تک بھی رہتی تو غنیمت تھا۔ مگر...

EID MUBARK

Image
عید مبارک 💐❤💐 رخشندہ بیگ احباب عیدمبارک کے کارڈ دینا اس کی خریداری اور نئے سے نئے ڈیزائن کے خوشنما عید کارڈ کبھی ہماری عید کی ثقافت کا خوبصورت اور لازمی جز ہوتے تھے  ۔ گزرتے زمانے اور تیز رفتار ڈیجیٹل دور نے جہاں اور بہت سی روایات کو ماضی کا حصہ بنا دیا ہے ،عید کارڈ لینے اور دینے کی رسم بھی کہیں کھو گئی ہے ۔ خوبصورت اشعار سے سجے کھٹی میٹھی دوستی اور محبت بھرے پیغام اور ان کے ہمراہ خوبصورت تحفے ان کی تیاری خریداری ۔۔۔۔۔کیسا شاندار اور حسین زمانہ تھا ۔ سن 94 ...95 کی قیمتی یادگار عید کارڈز جو کچھ بہت پیارے اپنوں کی جانب سے دیے گئے ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں ۔ رب کریم میری تمام دوستوں کو خوش و خرم اور آباد رکھے ۔ اور جو پیارے اس عالم فانی سے کوچ کر چکے ہیں ان کی مغفرت فرما کر جنت کے باغوں کا مکین بنادے آمین ثمہ آمین ۔ ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں کیک 😍 پوسٹ پڑھنے والا لاکھوں میں ایک 😍 عید آئی ہے زمانے میں ☺ کیا آپ پھسل پڑے ہیں غسل خانے میں 😁

Afsancha

Image
عنوان : ماتھے کا جھومر  مصنفہ :رخشندہ بیگ  پورا کمرہ گلاب کے پھولوں سے مہک رہا تھا۔ گلاب کی  منہ بند کلیاں سفید موتیے کے ساتھ مل کر ایک عجب سا فسوں پھیلاٸے، اس شبستان کے آباد ہونے کی امید میں اپنے پھول بننے کی منتظر، اپنے وجود کی مہک سے قرب وجوار کو مہکاٸے دے رہی تھیں۔ پرتعیش بستر پر بچھی سفید، بےداغ ریشمی چادر اور اس پر سرخ مخملی تکیوں کے سہارے نیم دراز عروس، بھاری لباس و زیورات کے ساتھ اس سے بھی کٸی گنا بھاری باپ کے اونچے شملے کی عزت کا بوجھ اپنے وجود پر لادے، اندیشوں کے جھولے پر ہچکولے کھا رہی تھی۔ خود کو بار بار اس امتحان کے لٸے ہمت دے رہی تھی جو آنے والے کچھ لمحوں میں اس پر مسلط ہونے والا تھا۔ کمرے کے دروازے پر ہونے والی آہٹ نے اس کو چوکنا کر دیا تھا۔ تکیے کا سہارا چھوڑ کے وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ سر پر دھرے آنچل کو کھینچ کر گھونگھٹ کی شکل دینے میں اسے بس اک پل لگا۔ زمین کا وارث، ایک شاہانہ کروفر کے ساتھ کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔ دلہن کا گھونگھٹ ایک جھٹکے سے الٹ دیا گیا۔ پہلی بات شرط پر پورا اترنا تھی اور اس کے بعد الفاظ ہی نہیں بچے تھے جو اپنا اظہار کرتے سو چپکے سے منہ مو...

Article

Image
حکیم محمد سعید  ایک یادگار ، تاریخ ساز شخصیت  ازقلم : رخشندہ بیگ  ایک بچہ اپنے بڑے بھائی اور بزرگوں کے ہمراہ کسی جنگل میں شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے ۔گرمی شدید ہے اور دھوپ و پیاس کی شدت نے بے چین کر دیا ہے ۔کہ راستے میں اچانک گنے کے کھیت پر نظر پڑی اور اس بچے نے بے تابی سے ایک گنا توڑ کر چوسنا شروع کر دیا ۔ بڑے بھائی کی جو نظر پڑی تو سوال کیا ۔ "گنا توڑنے سے پہلے کھیت کے مالک سے اجازت لی تھی ؟" یہ سن کر بچے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔کہ پیاس کی شدت میں یہ تو دھیان ہی نہ رہا ۔اب شرمندگی کے مارے سر جھکائے کھڑا تھا ۔ بڑے بھائی نے کھیت کے مالک کو تلاش کیا اور اسے گنے کی قیمت لینے پر اصرار کیا ۔۔۔۔۔جسے گنے کے مالک نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ "بچہ ہی تو ہے لے لیا تو کیا ہوا !!  اسے میری طرف سے تحفہ سمجھ لیجے ۔" "یہ تھا بچوں کے پیارے حکیم محمد سعید کا بچپن ۔۔۔۔۔دیانت داری ، امانت ، سچائی اور محنت کے اصول انہیں بہت کم عمری میں ہی ازبر کروادیے گئے تھے ۔" جنوری 1920 دلی میں حکیم عبدالحمید کے ہاں پانچویں بچے کی پیدائش ہوئی ۔اس بچے کا نام  محمد سعید رکھا گیا ۔یہ بچہ تما...

Afsana

Image
عنوان :منت کی دیگ  رخشندہ بیگ    ”بھورے ،نذیر ، راجی اور باقی سارے کہاں رہ گٸے ہو “؟ عبدالکریم کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی ۔ گھر کے تینوں کمروں میں ہر عمر کی عورتیں ، لڑکیاں اور بچیاں بلاامتیاز بھری ہوئی تھیں ۔ نواڑی پلنگوں پر عمر رسیدہ عورتیں جو رتبے میں دادی نانی ، تاٸی ،چچی ،ممانی اور پھپھی جیسے عہدوں پر فائز تھیں ,براجمان تھیں ۔کچھ شادی شدہ نوجوان  عورتیں میسر آٸے مونڈھوں پر بیٹھیں تھیں ,جن میں سے کچھ اپنا پیٹ سنبھال رہی تھیں ,تو کچھ شیر خوار کو چھاتی سے لگائے اور دوسرے کو گھٹنے پر ٹکائے مامتا لٹانے میں مصروف تھیں ۔لڑکیاں بالیاں نیچے  کھیس نما دری پر بیٹھی ایک دوسرے کے کانوں میں گھسی سرگوشیوں میں مصروف نظر آتی تھیں ۔ بڑا سارا صحن رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجا تھا ایک طرف اگربتیاں  سلگ رہی تھیں جو ختم ہونے پر دوبارہ لگا دی جاتی تھیں ۔ صحن میں موجود عبدالکریم کلف لگی پگڑی اور سفید کرتا دھوتی میں ملبوس بڑی شان سے مونچھوں کو تاؤ دیتے موجود تھے ۔ پیر پیراں بڑی سرکار کی آمد کا وقت ہوا ہی چاہتا تھا ,”ارے ناہنجاروں کوئی بڑی سڑک تک بھی گیا ہے یا نہیں !!! ؟ بڑے ...

Kids Fiction

Image
 #Kids Fiction عنوان :مہربان ساواہ  مصنفہ :رخشندہ بیگ حسین ترین شب اپنے پورے جوبن پر تھی .فضاء بے کراں کے سینے پر طلسمی تجلیاں اپنا فسوں پھیلاٸےکسی انہونی کی منتظر تھیں ۔ حد نظر آسمان قرمزی رنگوں سے سجا ,اپنے سینے پر جا بجا روشن قندیلیں لئے ,فخر سے سینہ تانے دھرتی کے اندھیروں کو ستاروں کے جھرمٹ اور ان کی روشن کرنوں سے منور کیے دے رہا تھا ۔ برف زاروں پر ٹنڈ منڈ اشجار اپنے پیرہن کے بوجھ سے آزاد اداس کھڑے تھے۔ نئی امیدوں نئے شگوفوں کے منتظر نئی بہاروں کے انتظار میں، اپنے سوختہ اجسام لیے ستاروں کو تکتے تھے اور یہ جادوئی سی اسرار بھری روشنی برف زاروں پر پڑ کے سفید برف کو بھید بھرے رنگوں میں تبدیل کرتی نظر آتی تھی ۔ تمام سبزہ تمام سبز پیراہن برف کی سفید قبر میں دفن ہو چکے تھے ۔ایسے میں وہ بڑی شان سے قدم اٹھاتا غرور سے کسی شاہ کی طرح قدم قدم برفیلے راستوں پر ،کسی غذا کی تلاش میں سرگرداں، حیرت سے سر اٹھا کر اس پر فسوں رات کے سحر کو محسوس کرتا نظر آرہا تھا ۔ اونچے لمبے تنے اور ان کی برہنہ شاخوں کے نوکیلے پنجوں سے جھانکتے مسکراتے ستارے ،اپنی ہستی پر نازاں نظر آتے تھے ۔ فیری ٹیل کی طرح ک...

Articl

Image
   عنوان :ہم اور ہمارے رنگ   ازقلم :رخشندہ بیگ کراچی  آئیے احباب آپ سے ایک راز بیان کروں ،گو کہ یہ اب ایسا کوئی راز بھی نہیں جو اسرار کی تہوں میں پوشیدہ ہو ۔ بطور قوم ہم اور ہمارے رنگ دنیا کے ساتھ ساتھ اب ہم پر خود بھی آشکار ہیں ۔ لاکھ پہلو بچائیں ,ہزار نظرئیں چرائیں ,مگر ہم پاکستانیوں جیسی رنگ برنگی فطرت کی مالک قوم آپ کو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی دستیاب نہ ہو سکے گی ۔ گرگٹ تو رنگ بدلنے میں بس ویسے ہی شہرت یافتہ ہے ۔اصل رنگ بدلنے میں ماہر ہم نہ جانے کیسے اس شہرت واعزاز سے محروم رہے ۔ اس سلسلے میں بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں بھی اغیار کی کوئی نہ کوئی سازش کارفرما نظر آتی ہے ،کہ ہزار رنگ داستاں کی طرح ہر موقع کی مناسبت سے بھیس بدلنے میں ماہر ،ہماری اس خصوصیت کا کہیں کوئی ذکر خیر ہی نہیں ملتا ۔ ارے صاحب آپ کو ہمارے رنگ دیکھنے ہیں تو آئیے زرا کچھ نظارے کرواتے ہیں ۔پانچ سالہ دور حکومت (جو کسی کسی منتخب رہنما کو ہی پورا کرنا نصیب ہوتا ہے ۔)کے بعد ہونے والے الیکشن کے دوران ہم سب اپنی سیاسی بصارت وبصیرت کے وہ وہ جوہر دکھاتے ہیں ،بلکہ اپنی پسندیدہ جماعت وامیدوار کی وہ وہ خ...