Skip to main content
Afsana
- عنوان۔:آدھی حقیقت آدھا فسانہ
- اولین بہار کے خوشگوار دن ،مہکتی سی ہواؤں میں گھلی سبزے کی مہک اور آسمان پر بکھرے بادلوں کے حسین نقش ونگار ۔ جہاں تک نظر جاتی قدرت کے حسین جلوے بکھرے نظر آتے ۔درختوں پر کھلے شگوفوں سے اٹھکیلیاں کرتی مست خرام ہواؤں کے سنگ ہمارا سفر جاری تھا ۔
- اب آپ لوگوں سے کیا پردہ !! دراصل میں کافی سست ہو چکا ہوں۔پرسکون ماحول نے مجھے آرام طلب بنادیا ہے ۔
- پاس سے گزرتی بس کے پیچھے لکھا ہے" نصیب اپنا اپنا "اس نعمت کو میں بھی کچھ ایسا ہی تصور کرتا ہوں ۔
- دو دن پہلے کی بات ہے ۔اس دن بھی شام اسی طرح مہک رہی تھی ۔فیضی بھی بہت خوش تھا ۔خوب ہلا گلا اور موج مستی ۔۔۔مگر مجھے آثار کچھ اچھے نظر نہیں آرہے تھے ۔موٹو بھی کچھ سہما ہوا محسوس ہوتا تھا ۔اس کا بڑا سا ڈیل ڈول، جس پر وہ غرور سے اکڑا دکھائی دیتا تھا ۔اور اپنی گھٹیا سی ہنسی سے سب کا مذاق اڑاتا رہتا تھا ۔آج وہی اس کے گلے کا پھندا بن چکا تھا ۔
- کچھ دیر میں من چلوں نے ایک طرف کھڑے اس کے وجود کو کھوج نکالا ۔ناجانے کب کب کا دبا غصہ تھا، جو وہ اس پر نکالنے لگے ۔بات یہاں تک بھی رہتی تو غنیمت تھا۔ مگر یہ تو جنون کی شکل اختیار کرتا چلا گیا ۔بے چینی اور غصہ اچانک باہر کی جانب امنڈ پڑا اور وہ اس پر زور زور سے گھونسے برسانے لگے ۔بالکل اسی طرح جیسے ہر طرف سے پستی عوام کے ہاتھ کوئی سڑک چھاپ لٹیرا لگ جائے اور وہ اپنی بے بسی اور غیض وغضب جو (بڑے چوروں اور لٹیروں پر نہیں نکال سکتے )اس پر انڈیل دیں ۔مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیں ۔ ایسے ہی موٹو کی دھنائی ہو رہی تھی ۔ایک لڑکا کچھ زیادہ ہی جوش میں اس پر لاتیں بھی برسانے لگا ۔اچانک زؤوووووں کی تیز سیٹی نما آواز گونجی اورکچھ ہی دیر میں وہ کسی ہوا نکلے غبارے کی طرح بے جان سا زمیں پر پڑا تھا ۔
- میں نے تاسف سے اسے دیکھا ۔ہائے بیچارہ۔۔۔۔۔ اسے اپنی اٹھان پر کس قدر ناز تھا۔ مگر ایک زوردار لات نے ہی اس کے غرور کے غبارے سے تمام ہوا نکال ڈالی ۔۔۔۔۔ایسے ہی بہت سے پر غرور وجود قدرت کی ایک ہی ضرب سے زمین بوس ہوجاتے ہیں ۔مگر پھر بھی نا جانے کیوں اکڑے جاتے ہیں ۔کسی مردے کی طرح ۔ قدرت کا بھی ایک اصول ہے۔ زندوں کے درمیاں مردوں کا بھلا کیا کام !!!۔سو کہانی کے بیکار کرداروں کی طرح اسٹیج سے اتار دیے جاتے ہیں۔میں نے بھی ایک قہقہ لگایا اور خس کم جہاں پاک کہہ کر آگے بڑھ گیا ۔
- رات وہ عورت اپنے میک اپ زدہ چہرے اور بے تکے وجود کے ساتھ اٹھلاتی ،لہراتی فیضی کو بہلا رہی تھی ۔مگر وہ بھلا کیا جانے ،اس کی اداسی اور دلی کیفیت کو !! یہ تو صرف میں ہی محسوس کرسکتا تھا ۔مجھے رنگوں کی تہوں میں چھپی بے رنگی اور نقلی لبادوں میں لپٹے اصلی چہرے بخوبی نظر آجاتے ہیں ۔
- سفر پر سکون انداز میں جاری تھا ۔قدرت کے سر بستہ رازوں کے امین ،اپنی دنیا اور خیالات کے ہجوم میں خاموش تھے ۔یا ظاہر ہوتے تھے ۔درون ہستی ہوتی ہلچل اور جوار بھاٹے کہاں کسی پر ظاہر ہوتے ہیں ۔تو یہاں بھی راوی ابھی تک تو چین ہی لکھ رہا تھا ۔
- مگر کب تک !!
- "اوئے رک ۔۔۔رک بے نتھے بیل کی طرح کہاں چلے جا رہا ہے "
- دو وردی والے زور زور سے ہاتھ مارتے گاڑی رکواتے ،ڈرائیور کی اگلی پچھلی نسلیں ایک کر رہے تھے ۔
- "کیوں مائی باپ !! اس مہینے کا وظیفہ نہیں ملا بادشاہو ؟"
- ڈرائیور نے زیرلب گالی بکتے ،مسکین لہجے میں سوال کیا ۔
- "وظیفے دے پتر چپ کر، اوے ۔۔۔۔۔ تھلے لگ " وردی والے نے ادھر ادھر دیکھا اور ڈرائیور کو نیچے اترنے کا اشارہ کیا ۔
- وہی تماشہ جو اہل کرم صبح شام دیکھتے ہیں ۔ایک بار پھر دہرایا جانے لگا ۔رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں جہنمی ٹھہرے ۔ مگر انسان اپنے رب کو بھی جھانسا دینے سے باز نہیں آتا ۔ضمیر کو تھپکی دے کر دنیا کمانے پر کمربستہ ،آخرت کا آخر میں دیکھیں گے ۔میرا دل چاہا بے اختیار ایک قلابازی کھاؤں اور زور زور سے قہقہے لگاؤں ۔۔۔۔بس عادت سے مجبور ہوں ۔پھر فیضی کے خیال سے رک گیا ۔
- بس کردے ۔نا نا نا ۔۔۔۔۔۔۔باز آجاؤ میں نے اپنے بے اختیار ہوتے اعضاء کو سرزنش کی ۔مجھے تو خود پر ہی اختیار کھو رہا تھا ۔ڈرائیور اور کنڈیکٹر موقع کا فائدہ اٹھاتے ،بھرے ہوئے سگریٹوں کے سوٹے لگا کر ،ایک ہی حمام میں وردی اور بغیر وردی، ایک دوسرے کی ایسی کی تیسی کرتے، مسافروں سے بے نیاز کھڑے تھے ۔
- اندر کی فضا بھی اب باہر کی طرح آلودہ نظر آتی تھی ۔ایک دھما چوکڑی اور چھینا جھپٹی جاری تھی ۔اونچی آواز میں لگے، لچے گانے کانوں کے ساتھ دماغ میں بھی ہیجان برپا کیے دے رہے تھے ۔
- میں بھی آخر جذبات رکھتا ہوں ۔اور ان لوفرانہ گانوں کے ہیجان انگیز بول جب دماغ گھماتے ، اس حد تک اثر انگیز ہوتے ہیں، کہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں ہی انسان کو جانور کے برابر لا کھڑا کریں اور انسان کے بچے سے بلیاں ،بکریاں بھی پناہ مانگیں ۔۔۔۔پھر میرا میٹر بھی اوپر نیچے ہو سکتا ہے ۔ان ہی خیالات میں ڈوبا میں پچھلی رات کے اس چور لمحے میں پہنچ گیا ،جو اتفاق سے مجھ پر ظاہر ہوا تھا ۔
- دیکھا !!! یہ سفلی خیالات اور جذبات انسان کو کیسے اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔ نجانے کب، رکا ہوا سفر پھر سے شروع ہو چکا تھا اور میں بے خبر تھا ۔ڈرائیور اب کے ترنگ میں مست گاڑی چلا رہا تھا ۔ساتھ ہی اپنی علا قائی زبان کے کسی گیت کو بھونڈے سروں میں گاتا اور اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر اونچے قہقہے لگاتا ۔
- ہاں !!! میں بتا رہا تھا کہ گزری رات میں اتفاق سے لاؤنج میں موجود تھا ۔ اس عورت کی مجھ پر نظر نہیں پڑی اور وہ اپنی ساڑھی کا کونا مروڑتی کسی سے بڑے انداز سے بات کر رہی تھی ۔مجھے لگا مسٹر ریحان ہیں ۔مگر !!! ان سے تو میں نے کبھی ایسے بات کرتے نہیں سنا تھا ۔جب مسٹر ریحان کا فون آتا تو نہ آواز میں یہ لوچ ہوتی ،نہ چہرے پر گلاب کھلتے اور نہ آنکھوں میں نشیلے ڈورے ۔یہ تو معاملہ ہی اور لگتا تھا ۔
- "جان من مجھے تو تم جیسے مرد کی ہی ہمیشہ سے چاہ رہی ہے ۔تم ہی میرے دل کی آرزو میرے من میت ہو ۔"
- آواز میں جیسے شیرنی گھول دی گئی تھی یا خمار تھا ۔۔۔۔ خمار گندم شاید اسے ہی کہتے ہیں ۔ہائے انسان اور اس کی فطرت ،بھوکے کو روٹی سے عشق ہوتا ہے ۔یہ عشق اور اس کی مہک ہر دلفریپ مہک سے عزیز تر ہو کر عاشق کو اپنے پیچھے دوڑاتی ہے ۔روٹی ہی محبوب ،روٹی ہی چاند ،روٹی ہی کل کائنات ۔ جب کہ پیٹ بھرا ناشکرا، ہر موجود نعمت کو ٹھکرا کر اور سے اور کی حرص میں ٹھوکر پر ٹھوکر کھائے چلا جاتا ہے ۔
- خیر مجھے اس سے کیا !!
- مجھے تو اپنی فکر تھی ۔مجھے فیضی کے ساتھ جانا تھا۔ ویسے تو مجھے یقین تھا، وہ میرے بغیر نہیں جائے گا ۔مگر اس عورت کا کیا بھروسہ ۔ مجھے اس کی نظروں میں نہیں آنا تھا ۔میں جانتاہوں وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے ۔
- اب وہ اپنے ڈیجیٹل عاشق سے شوہر کی بے اعتنائی اور دوسرے شہر نوکری کے شکوے کرتی نظر آرہی تھی ۔۔۔میں تو چپ چاپ وہاں سے کھسک لیا ۔دو تین قلابازیاں کھائیں اور اپنے گوشہ عافیت میں روپوش ہو گیا ۔
- ارے یہ کیا !!گاڑی اپنے راستے سے ہٹ کر دوسری سمت سے اونچے پل پر چڑھ چکی تھی ۔یہاں ہر طرف ایک افراتفری مچی تھی ۔ایک پر ایک گاڑی چڑھی جاتی، دوسری جانب پل سے نیچے بھی ایک ہاہا کار مچی تھی ۔بڑے سے پنڈال پر ایک مداری اپنی ڈگڈگی بجارہا تھا ۔۔۔۔اس کے روٹی ،کپڑا مکان کے جادؤئی کلمات لوگوں پر سحر طاری کر رہے تھے ۔اتنے میں دوسرا مداری ڈنڈا لہراتا ، اسلام زندہ باد کی ڈگڈگی پر لوگوں کو نچانے لگا ۔کچھ لوگ بے خودی میں جب کہ کچھ مجبوری میں سر دھنتے نظر آتے۔ ایک کے بعد ایک مداری آ رہے تھے ۔خوابوں کے سودے ،جھوٹی تعبیروں کے جال ۔مکروفریب کی بجتی ڈگڈگی پر ،ناچ ناچ کر لوگ بے حال ہوتے جا رہے تھے ۔خوش حال، بدحال ہوچکے تھے۔ سفید پوش ،غریب، فقیر بنے قطار در قطار کھڑے تھے اور مداری کا تماشہ تھا کہ رکنے میں ہی نہیں آتا تھا ۔سرکس تھا ۔۔۔۔ارے بھائی کمال سرکس ۔
- دل کیا ان بھاشن دیتے اوتاروں کے کان کھینچ ڈالوں ،یا پھر ناک ہی دبا کر بھاگ جاؤں۔ مگر ڈرتا ہوں بدیسی جیلوں میں نہ پہنچادیا جاؤں، یا سر عام پھانسی ،نہیں تو کوڑے تو پڑ ہی سکتے ہیں ۔سو خاموش بیٹھا مسکراہٹ بکھیرتا رہا۔ کل بھی زندہ آج بھی زندہ کے نعرے ۔۔۔۔مجھے کیوں نکالا کے شکوے ۔۔۔۔اور نئے پاکستان بنانے کے دعوے، دور تک پیچھا کرتے رہے ۔اور میں ہنس ہنس کر لال ہو گیا ۔یہاں تک کہ میری رنگ برنگ آنکھوں سے پانی نکل کر میرے سرخ ہونٹوں تک پہنچ گیا۔
- میرے کانوں میں فیض کا کلام گونجنے لگا ۔۔۔
- ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ۔
- جب تاج اچھالے جائیں گے
- جب تخت گرائے جائیں گے
- جب ظلم وستم کے یہ کوہ گراں
- روئی کی طرح اڑ جائیں گے
- راستہ کھل چکا تھا بے ہنگم ٹریفک کے اژدھام سے نکل کر ہم ایک لمبا چکر کاٹ کر اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے ۔
- فیضی رات سے اداس تھا ۔اس عورت نے بھی تو کوئی لحاظ کیے بغیر اس کے جذبات کی دھجیاں اڑا دی تھیں ۔
- میری تو اوقات ہی کیا !!!! یہ تو وہ محبت تھی جو مجھے تحفہ دینے والے سے وابستہ تھی ۔اور اسی وجہ سے میں اس سفر میں بھی فیضی کے ساتھ تھا ۔گویا سگ لیلی بھی لیلی کی مانند عزیز ٹھہرا۔مگر اب وہ کافی حد تک بہل چکا تھا ۔دوستوں کے ساتھ مل کر لگائے گئے قہقہے اس کے اندر کے خالی پن کو ظاہر نہ ہونے دیتے تھے ۔میرا تو یہ اپنے اصل کی جانب سفر تھا ۔ہر شے کو آخرکار اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہی ہوتا ہے ۔
- گاڑی رک چکی تھی ۔بڑے سے میدان میں خوبصورت شامیانے ،بڑے بڑے رنگ برنگ غبارے ، چیختا چنگھاڑتا میوزک ،تیز آواز سے چلتے جھولے ،اور اس میں بیٹھے اس سے بھی اونچی آواز میں چیختے مرد و زن اور بچے ۔داخلی دروازے پر اونچائی پر لگی جھالر اور اس سے لٹکتے یکساں فاصلے پر لہراتے ایک فٹی ربڑ کے بنے جوکر، جو اپنے رنگ برنگے لباس اور ہنستے چہرے کے ساتھ لہرا لہرا کر ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتے محسوس ہوتے ۔ایک جگہ ان کے درمیان زیادہ خالی جگہ دیکھ کر میں مسکرادیا ۔۔۔کتنا جانا پہچانا ماحول تھا ۔مگر وہی کہ نصیب اپنا اپنا ۔فیضی اور اس کے ساتھی ٹکٹ گھر سے ٹکٹ لے کر قطار بنائے گیٹ سے اندر داخل ہو رہے تھے ۔اپنے شہر سے قریبی بڑے شہر میں ،لگا یہ سرکس سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ۔اس وقت بھی باہر کئی چھوٹی اور بڑی گاڑیاں کھڑی تھیں ۔
- مجھے یہ بات کبھی سمجھ ہی نہیں آئی کہ اتنا بڑا وسیع وعریض پنڈال چھوڑ کر لوگ اس مخصوص جگہ ہی کیوں آتے ہیں ۔مجھے تو اس سرکس سے باہر بھی ہر طرف مداری ،شعبدے باز اور کرتب باز نظر آتے ہیں ۔پھر یہی کیوں !!!مگر چلیں مرضی ہے لوگوں کی ،اس سے کم ازکم ان بے چاروں کی روٹی روزی چلتی رہتی ہے، جو موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتے ہیں ۔اونچی رسی پر چل کر آگ کے گولوں سے نکل کر لوگوں کو حیران کرتے ہیں ۔
- شیر ہاتھی اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں ۔جب کے سب سے مشکل کام انسان کو اشاروں پر نچانا ہے ۔جو اس سرکس سے باہر بڑی خوبی سے انجام دیا جاتا ہے ۔یہ بیچارے چھوٹے مداری کہاں ،ان بڑے اور ماہر مداریوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔
- فیضی اور اس کے ساتھی بہت پرجوش تھے ۔وہاں موجود ہر چیز کو تجسس سے دیکھتے ،موت کے کنویں کا نظارہ ،جادوگر کا شو یہ سب اور اس کے ساتھ رنگ بدلتی روشنیاں،ہیجان انگیز موسیقی ۔اس جگہ کا اپنا ہی ایک فسوں تھا۔
- "چلو فیضی وہاں چلیں ،دیکھو وہاں کتنے لوگ جمع ہیں "
- فیضی کے دوست نے ایک جانب اشارہ کیا ۔میں اسی چیز سے گھبرا رہا تھا ۔میں بالکل نہیں چاہتا تھا کہ وہ وہاں جائے ۔
- "چلو چلو مجھے تو یہ شو بہت اچھا لگتا ہے ۔"اس نے پیار سے میرے سر کو سہلایا اور آگے بڑھ گیا۔ساتھ ہی میرے تصور میں رات ہونے والی گفتگو تازہ ہو چکی تھی ۔
- آپ اس طرح کیسے کر سکتی ہیں !!وہ میرے پاپا ہیں اور وہ ہی رہیں گے ۔ہمارے آرام اور آسائش کی خاطر ،ہمیں بہتر معیار زندگی دینے کے لیے ،وہ کمپنی انجینئیر کی نوکری چھوڑ کر ،گھر سے دور دوسرے شہر نوکری کر رہے ہیں۔ تاکہ ہمیں کسی قسم کی کمی نہ ہو ۔اور آپ کہتیں ہیں کہ اب آپ کا ان کے ساتھ گزارا نہیں ۔"
- فیضی غصے سے لرزتا اپنے کمرے میں بند ہو چکا تھا ۔وہ تو شکر ہے صبح ہی سفر پر روانگی تھی ۔میں اس کی ہر تکلیف ہر دکھ سے واقف تھا ۔مگر کیا کرتا ،مداوا میرے بس میں نہیں تھا اور شاید کسی کے پاس تھا بھی نہیں ۔کچھ چیزیں جیسی بھی کسک کے ساتھ ملیں، انہیں قبول کیے بنا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہوتا ۔
- سرکس کا سب سے مقبول شو پورے زوروشور سے جاری تھا ۔ہر طرف سیٹیاں اور تالیوں کے ساتھ قہقہے اور جانی ۔۔۔۔جانی کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔"میرے پیاروں ،سجنوں جانی لافٹر شو میں آپ سب کو خوش آمدید "
- رنگ برنگ کپڑوں جھالر والی ٹوپی موٹی سی مصنوعی ناک اور چہرے پر بہت سے رنگ لگائے جانی جوکر، اوٹ پٹانگ حرکتیں کر کے لوگوں کو خوب ہنسا رہا تھا ۔مگر مجھے بالکل ہنسی نہیں آرہی ۔میں نے بتایا نا، میں رنگوں کی تہہ میں دیکھنا جانتا ہوں ۔یہاں بکھرے رنگوں، روشنیوں کی اوٹ میں گونجتی سسکیاں اور چہرہ در چہرہ پوشیدہ غم مجھے ہنسنے تو دور، مسکرانے بھی نہیں دیتے ۔
- جانی بار بار پھسل رہا ہے ۔۔۔۔کھڑا ہوتا ہے ،پھر گرجاتا ہے۔ لوگ ہنس ہنس کر دھرے ہورہے ہیں ۔جانی کے اوپر انڈے اور ٹماٹر پھینک رہے ہیں۔ وہ ان سے بچنے کی مصنوعی ناکام کوشش کر رہا ہے ۔
- تماشائی اس کی ہر بے بسی سے حظ اٹھا رہے ہیں ۔مگر مجھے اس کی نظروں میں ایک التجا آمیز کرب ہلکورے لیتا نظر آرہا ہے ۔وہ کرب جو صرف میں ہی جان سکتا ہوں ۔آخر میں بھی تو اسی کا روپ ہوں ۔جانی بہت سے رنگوں کی تہوں میں خود کو فنا کرکے لوگوں کو ہنسی اور خوشی کی انمول سوغات بانٹ رہا ہے ۔
- مگر !! مجھےنظرآرہا ہے۔ مسٹر ریحان جانی کے وجود میں ہراساں اور بے لباس کھڑے ہیں ۔
-
-
Comments
Post a Comment